دہر
طویل زمانہ، ازل اور ابد کا منشا جس کی نہ ابتداء ہو نہ انتہا ہو، اور ہر وہ شے جو ابتداء اور انتہا رکھتی ہوو ہ اسی میں سمائی ہوئی ہو، اور وہ خود اس میں سے کسی میں سمایا ہوا نہ ہو، یا جس کی وجہ سے ازل وابد متحد ہوجائیں ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ د ہر ایک ہزار سال کا ہوتا ہے ،یا اس سے طویل زمانہ مراد ہوتا ہے ،دہر کو صرف ابد سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی کبھی اس کا اطلاق حق تعالیٰ پر بھی کر لیا جاتا ہے جیسا کہ حضور اقدس سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ظاہر ہے :
’’لاتسبوا الدھر فان الدھر ھو اللہ تعالیٰ‘‘
دہر ، سرمد اور زمان میں فرق
دہر ،سرمد ،اور زمان ایسے الفاظ ہیں جن کا مفہوم متعین کرنا اور ان کے مابین جو دقیق فرق ہے اس کا سمجھنا بہت مشکل ہے، بڑے طویل غور و فکر کے بعد جو چیز منتج ہوسکی ہے وہ یہ ہے کہ’’ سرمد‘‘ سب سے بلند و بالا اور ’’دہر ‘‘کا ظرف ہے کہ دہر اس میں در آیا اور سمایا ہوا ہے، پھر دہر زمان کا ظرف ہے کہ زمان اس میں سمایا ہوا اور در آیا ہوا ہے، اس کے بعد زمانے کا نمبر ہے کہ تمام انقلابات، تمام تبدیلیاں اور ہمہ قسم کے تغیرات و انقلابات خواہ تدریجی ہوں یا دفعی ظرف زمان میں سمائے ہوئے ہیں … اور زمانہ ان کا ظرف ہے، کم سے کم اور مختصر سے مختصر الفاظ میں ان کی تلخیص وتعین شاید اس طرح کی جاسکے کہ ثابت کی نسبت ثابت کی طرف جائے تو ’’سرمد ‘‘ہے ،متغیر کی طرف ثابت کی نسبت کی جائے تو ’’دہر‘‘ ہے، متغیر کی نسبت متغیر کی طرف جائے تو ’’زمان‘‘ ہے۔
سرمد اور سرمدیت صرف حق جل مجدہ وحدئہ لاشریک کے ساتھ مختص ہے، دہر اور دہریت کا اطلاق عقول پر بھی ہوسکتا ہے،اس کے ماسوا جس قدر بھی تغیر پذیر موجودات ہیں وہ سب زمانی اور داخل زمان ہیں، دہر، سرمد اور زمان کے سلسلے میں فلاسفہ و حکماء نے بڑی کاوشیں کی ہیں اور ان کی بڑی طویل بحثیں کتب حکمت و فلسفہ میں درج ہیں، یہ بحثیں اس قدر دقیق اور مشکل ہیں کہ بڑی دقت سے ذہن نشین ہوتی ہیں۔