صفات نفسیہ – صفات الاجناس

صفات نفسیہ کی تعبیرات مختلف فضلاء نے جدا گانہ اور اپنے اپنے طور پر کی ہیں ،جو لوگ ان صفات کو کسی محل میں حال قرار دیتے ہیں ان میں سے قاضی با قلانی اور ان کے متبعین کی رائے یہ ہے کہ ذات کے بقا کی صورت میں یہ صفات اس سے جداا ور مرتفع ہو ہی نہیں سکتیں، مثلاً صفت جو ہریت اور موجود ہونے کی صفت صفات نفسیہ میں سے ہے کہ جو ذات کے باقی رہنے تک لازماً باقی ر ہتی ہے۔

جبائی اور ا س کے ہم خیال معتزلہ کا خیال یہ ہے کہ ان صفات کی وجہ سے مماثلین میں مماثل اور متخالفین میں تخالف واقع ہوجاتا ہے، جیسے سوادیت اور بیاضیت (سیاہ ہونا اور سفید ہونا) ۔

اشاعرہ بنیادی طور پر صفات نفسیہ کے حال ہونے کی نفی کرتے ہیں ،ان کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ صفات صرف ذات کا پتہ دیتی ہیں ،اس کے علاوہ کسی اور زائد معنی کی جانب رہنمائی نہیں کرتیں،مثلاً وہ صرف یہ بتلاتی ہیں کہ ذات جوہر ہے یا موجود ہے یا ذات ہے یا شئی ہے ۔

اشاعرہ میں سے کچھ افراد ان کی تعبیران الفاظ میں کرتے ہیں کہ صفات نفسیہ وہ ہوتی ہیں کہ ان کی ذات کا وصف کسی امر زائد کے سمجھنے کا محتاج نہیں ہوتا، اگر دیکھا جائے تو اشاعرہ کی ان دونوں تعبیروں کا حاصل ایک ہی ہے ،ان صفات نفسیہ کے بالمقابل صفات معنویہ بھی ہوتی ہیں جو اس امر کی طرف مشعر ہوتی ہیں جوذات پر زیادہ ہوتا ہے، مثلاً ذات کا مکان میں ہونا جس کو تحیز سے تعبیر کیا جاتاہے ،اور کون کہہ سکتا ہے کہ تحیز ذات جو ہر پر زائد نہیں ہے ،یا مثلاً حدوث جس کے معنی ہی وجود کے مسبوق بالعدم ہونے یعنی عدم سے وجود میں آنے کے ہیں ،اور اس کے ذات پر امر زائد ہونے میں بھی کوئی اشتباہ نہیں ہے ،صفات نفسیہ کو ’’صفات الاجناس ‘‘بھی کہاجاتا ہے۔

error: Content is protected !!