طبیعت
جو بالذات حرکت وسکون کا اور افعال ذاتیہ کا مبدء ہو، غیر ذی شعور ہو ،یا قوت جو اجسام میں ساری (پھیلی ہوئی) ہو کہ جس کی وجہ سے جسم اپنے طبعی کمال تک پہنچ جائے ،اطباء طبیعت کا اطلاق مزاج اور حرارت غریز یہ پر کرتے ہیں۔
طبیعت کا مفہوم ’’ قوت مدبرہ‘‘ کے دو لفظوں میں پوشیدہ ہے، طبیعت ہی درحقیقت بدن انسان کی مدبر ہے، بدن کی اندرونی اصلاح وتدبیر کے سارے فرائض طبیعت ہی سے متعلق ہیں ،یہی امراض کا مقابلہ کرتی ہے ،اور دوران مقابلہ بڑے محیر العقول اعمال انجام دیتی ہے، طبیعت جب کمزور ہوجائے تو سارے علاج معالجے پڑے رہ جاتے ہیں اور طبیبوں اور مسیحاؤں کی ساری طب ومسیحائی بے کار ہوجاتی ہے، درحقیقت اولاً اوربالذات معالج طبیعت ہے اور بالعرض وثانیاً طبیب اور علاج ہے، بہترین معالج وہ ہے جو دوران معالجہ طبیعت کو قوت پہنچائے، تاکہ اس کی دوائیں طبیعت کی مدد سے موثرو کار گر ہوسکیں۔