عالم امر – عالم خلق
عالم کی یہ تقسیم صوفیائے کرام نے کی ہے، وہیں سے متکلمین ومفسرین نے ان اصطلاحات کو لیا اور استعمال کیا ہے۔ صوفیائے صافیہ کے نقطۂ نظر سے عالم خلق عالم محسوسات ہے ،اور عالم امر غیر محسوس عالم ہے۔
کم سے کم الفاظ میں اس کی تشریح یہ ہے کہ ’’ عالم امر‘‘ ایسا عالم ہے کہ جس کو موجد کل ،حق جل مجدہ‘ بلا لحاظ و بلا تعین مدت وجود میں لے آیا جیسے عقول ونفوس ۔ اس ’’عالم امر‘‘ کو ’’عالم غیب ‘‘و’’عالم ملکوت ‘‘سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
عالم امر وعالم خلق حق تعالیٰ کی ایک ہی تجلی کے دو پرتو ہیں کہ جب حق تعالیٰ نے اپنی وحدت کا ظہور کثرت میں چاہا تو عام فیض رسانی کے نقطہ نگاہ سے اولاً عالم امر کو موجود فرمایا، اور پھر سیر نزولی کرتے ہوئے تنزلات کے آخری مرتبے تک پہنچا کہ جو مرتبہ انسانیت ہے، اور طرفۃ العین (آنکھ جھپکنے) بلکہ اس سے بھی کم وقفے میں عالم خلق کی تخلیق کرتا ہوا اقصیٰ الغایات تک پہنچ گیا ، یعنی آخری نقطہ سے نقطہ اولیٰ پر جا پڑا اور درجہ اطلاق میں آگیا۔ گویا ایک نفس بلکہ طرفۃ العین یعنی پلک جھپکنے سے بھی کم وقفے میں عالم امرو عالم خلق ظہور میں آگئے:
اذا اراد شیئاً ان یقول لہ‘ کن فیکون
جہانے خلق وامر از یک نفس شد
کہ ہم آندم کہ آمد باز پس شد