مجمل

اصول فقہ کی اصطلاح میں ایسا لفظ ہے جس کی مراد اس کے صیغے ہی کی وجہ سے اتنی پوشیدہ ہوکہ کسی خارجی قرینے سے پوشیدگی دورنہ، بل کہ اس لفظ کو بولنے والا خود ہی مراد واضح کرے، جیسےنماز ، روزہ ، زکاۃ، حج،دیکھیے! نماز کا حکم ہے، نماز کے لیے اللہ کا لفظ ہے الصلاۃ، اس کے معنی دعا کے ہیں ، اب دعا کیسے کی جائے ، کس وقت کی جائے اور طریقہ کیا ہو؟ کچھ معلوم نہیں ، تو شارع علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو خود پڑھ کر بیان کردیا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیان نہ کرتے تو معنی پوشیدہ رہتے، لہٰذا ( نماز) صلاۃ مجمل لفظ ہوا،اسی طرح زکاۃ کا لفظ زیادتی اور پاکیزگی کے لیے بناہوا ہے، حج کا لفظ ارادہ کرنے کے معنی میں آتاہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم متکلم ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مراد بتلائی تب واضح ہوا، لہٰذا زکاۃ اور حج کے الفاظ بھی مجمل ہوئے۔

مجمل کا حکم یہ ہے کہ اس کی مراد کے حق ہونے کا اعتقاد رکھاجائے گا، بعدازاں متکلم کے مرادی مفہوم کے کھل جانے تک تین کام کیاجائے گا: (۱) ٹھہر کر معنی مرادی کا انتظار (۲) غور و فکر (۳) معنی مرادی کی تلاش ، یعنی مجمل پر عمل متکلم کی وضاحت کے بعد ہی ممکن ہے ، لہذا اس کے برحق ہونے کا اعتقاد رکھا جائے اور بیان کا انتظار کیا جائے ، اور جب شارع کی طرف سے وضاحت آجائے تو اس پر عمل پیرا ہوجائے۔

error: Content is protected !!