مرتبہ الہیہ

حقیقت وجود کو جب کسی شے کے ساتھ لحاظ میں لایا جائے تو اگر لحاظ اس حد پر پہنچ جائے کہ تمام اشیاء لحاظ میں آجائیں مع اس کلیۃ وجزئیۃ کے جو ان کو لازم ہیں جس کو اسماء وصفات سے تعبیر کر سکتے ہیں تو یہ مرتبہ الہیہ ہوگا جس کو واحدیت اور ’’مقام الجمع‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔

اب اگر معاملہ لحاظ ہی پر نہ رک جائے بلکہ آگے بڑھ جائے اور یہ مرتبہ مظاہر اسماء کے اعیان وحقائق تک اور ان کے کمالات تک پہنچادے جو خارج میںان کی صلاحیتوں کے اور استعدادوں کے مناسب ہیں تو اس کو مرتبہ ربوبیت کہاجائے گا ،اور اگر ان اشیاء ومظاہر کی صرف کلیۃ کو ملحوظ رکھاجائے اور جزئیات سے قطع نظر کرلی جائے تو یہ مرتبہ ’’رحمن‘‘ ہوگا جو عقل اول کا رب ہے، جس عقل اول کو’’لوح القضاء‘‘، ’’ام الکتاب‘‘اور’’قلم اعلیٰ‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔

اور اگر کلیات کی ساتھ ثابت و متحقق جزئیات پوری تفصیلات کے ساتھ لحاظ کی جائیں اس طرح کہ کلیات کی کلیت جزئیات کے لئے حجاب نہ بن سکیں اور ان پر حجاب کا پردہ نہ ڈال دیں تو یہ مرتبہ ’’رحیم‘‘ رب النفس الکلیہ کا ہے جس کا نام ’’ لوح القدر‘‘ لوح محفوظ اور کتاب مبین بھی ہے۔

اور صور مفصلہ کو جزئیات متغیرہ کی شرط اور حیثیت سے لیا جائے تو یہ مرتبہ اسم ماحی اسم منیب اور اسم محی کا ہوگا جو رب النفس ہے اور جسم کلی میں منطبق ہے کہ جس کا نام’’لوح المحووالاثبات‘‘ ہے۔

اور اگر اس شرط کا لحاظ کیا جائے کہ حقیقت وجود صورنوعیہ روحانیہ اور جسمانیہ کے قابل ہے تو یہ مرتبہ’’ اسم القابل رب الہیولی الکلیۃ‘‘ کا ہے جس کی طرف ’’ الکتاب المسطور‘‘ اور ’’الرق المنشور‘‘ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے ،اور اگر اس کو صور جسمیہ غیبیہ کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ مرتبہ’’اسم المصور‘‘اور ’’رب عالم الخیال المطلق والمقید ہے اور حقیقت وجود کو صورجسمیہ شہودیہ کی شرط سے لیا جائے تو وہ مرتبہ’’ اسم المظاہر المطلق‘‘ اور الآخر رب عالم الملک‘‘ ہے۔

error: Content is protected !!