مشائیہ – مشائین

فلسفہ یونان کے ایک مکتب فکر کا نام ہے، ان کا بانی ارسطو ہےاوراس کا جانشین فراسطوس ہے، ان کا مقصد عقلا موجودات کی تحقیق، تعلیم بذریعہ تحریر وتقریر ، کسی دین الہی کے تابع نہیں ،اس مکتب فکر کا اسلوب یہ ہے کہ وہ غور وفکر اوراستدلال وبراہین پر اعتماد کرتے ہیں ، یعنی عقلی مسائل کو دلائل سے ثابت کرتے ہیں ، اوریہ نام (مشائین) ارسطو کے طریقہ تعلیم کی طرف اشارہ کرتا ہے ،مشی عربی زبان میں چلنے کے معنی میں آتاہے ، اور ارسطو ایتھنز کے اسٹیڈیم میں چلتے چلتے لیکچر دیا کرتا تھا ، بعض مسلمان فلاسفہ مثلافارابی اورابن سینا نے اسی مکتب فکر کی پیروی کی ہے ، شہرستانی نے اٹھارہ مسلمان فلاسفہ کے نام لکھے ہیں جنہوں نے مشائیہ کی پیروی کی ہے، مشائی فلاسفہ ارسطو کے تابع بتائے جاتے ہیں۔

لفظ مشاء جس کے معنی چلنے والا ہے مشائی منہج سے قطعا روشناس نہیں کراتا ،یہ محض نام ہی کی حد تک ہے ،کہتے ہیں کہ ارسطو اور ان کے پیروکاروں کو مشائی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ارسطو کی عادت تھی کہ وہ ٹہل ٹہل کر اورچہل قدمی کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے تھے،مشائی منہج میں صرف عقلی استدلال پر بھروسہ کیا جاتا ہے ،بعض اسلامی فلاسفہ اس روش کے طرفدار ہیں ، کندی ، فارابی ، بوعلی سینا، خواجہ نصیر الدین طوسی ، میر داماد، ابن رشد اندلسی ، ابن باجہ اندلسی ، ابن الصائع یہ سب مشائی مسلک کے پیرو تھے ،اس مکتب کے مظہر کامل اورحقیقی نمائندہ بوعلی سینا ہیں ، ان کی شفا ، اشارات ، نجات ، دانش نامہ علائی ، مبداء ومعاد ، تعلیقات مباحثات اور عیون الحکمۃ جیسی فلسفیانہ کتابیں مشائی فلسفہ سے لبریز ہیں ، اس روش میں صرف استدلال اورعقلی برہان پر بھروسہ کیا جاتا ہے اوربس۔

اشراقیین اور مشائین میں فرق

اشراقی ومشائی منہاج میں بنیادی وجوہری فرق یہ ہے کہ اشراقی روش کی نظر میں فلسفی مسائل خاص کر ’’حکمت الہی ‘‘ کے سلسلہ میں صرف عقلی استدلال وتفکرات ہی کافی نہیں ، بلکہ کشف حقائق کے لیے نفس کا تزکیہ ومجاہدہ اورسلوک قلبی بھی ضروری ہے ، اس کے برخلاف مشائی منہج میں صرف استدلال پر بھروسہ کیا جاتا ہے ۔

حکمائے مشائیہ جو محض عقل اور تجربات کی روشنی میں تحریر وتقریر اور استدلال کے ذریعہ سے موجودات واقعی سے بحث کرتے ہیں ، موجودہ یورپ ،امریکہ اور روس وغیرہ کے حکماء اور فلاسفہ اسی جماعت مشائیہ کے لوگ ہیں ،کیونکہ یہ بھی محض عقل وتجربات ہی کی روشنی میں موجودات کی تحقیق اوران کی خصوصیات کے انکشافات میں لگے رہتے ہیں۔

مشائین نے فلسفہ و حکمت کی تدوین واشاعت میں قابل قدر خدمات انجام دی ،عروج اسلام کے زمانہ میں جب فلسفہ ترجمہ کرکے عربی میں منتقل کیا گیا تو لوگوں نے اس میں چند چیزیں جاذب نظر پائیں ،مثلا طرز بیان کی ندرت ، طریقہ استدلال ، توحید کا عقلی دلائل سے اثبات اور ذات وصفات پر عقلی موشگافیاں ،چنانچہ لوگ فلسفہ یونان کے پڑھنے پڑھانے کی طرف مائل ہوگئے ، مگراس سے جو سب سے بڑا نقصان پہنچا وہ یہ تھا کہ انہوں نے فلسفہ یونان کو شرعی نصوص (قرآن وسنت) سے بھی زیادہ وقعت دے دی ، اور جو نصوص فلسفہ کے مخالف نظر آئیں ، یا تو ان کو نظر انداز کردیا ، یا ان کی تاویلیں کرنے لگے ، اس طرح گمراہ فرقوں کا ظہور شروع ہوا اور دن بدن یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔

جب متکلمین اسلام کو اس کا احساس ہوا تو ایک تو طرف تو انہوں نے مشائین کے ان اصولوں اور نظریات کی تردید شروع کی جو اسلامی عقائد کو ضرر پہنچانے والے تھے اور دوسری طرف صحیح اسلامی عقائد کو مدون کیا کہ جس سے مشائیہ کے نظریات کی تردید بھی ہوجائے ،چنانچہ اس دور میں علم کلام کی کتابیں علم مناظرہ کی کتابیں بن گئیں ، ایک طرف متکلمین اسلام صف آراء ہیں اوردوسرے جانب حکمائے مشائین اور مسلم گمراہ فرقے جو عقلی ہتھیاروں سے اسلامی عقائد پر حملوں کی تدبیریں نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔

یہ تھے وہ واقعات واسباب جن کی وجہ سے حکماء مشائیہ اور متکلمین دو متحارب فریق بن گئے ، اور ان کے بعد آنے والے حکماء میں سے بھی جن کا نظریہ مشائیہ کے موافق ہو وہ مشائیہ سے مل کر ، اور جس کا نظریہ متکلمین کے موافق ہوا وہ متکلمین سے مل کر اس محاربہ میں شریک ہوتا گیا، اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔

error: Content is protected !!