ہباء

وہ گول مول چیز ہے جس میں خلاق وفتاح عالم نے سر برمہر اجساد واجسام کو کھول دیا ہے ،جس کو وجود حقیقی کے ساتھ عینیت میسر نہیں ،بلکہ اس کی موجودگی کا تعلق صرف انہیں صورتوں کے ساتھ ہے جس میںوہ کھولے اور متشکل کیے گئے ہیں۔

ہباء کو اس لحاظ سے عنقاء بھی کہاجاتا ہے کہ عنقاء کی طرح وہ بھی عجیب و غریب تفصیلات کا حامل اور محیر العقول عجائب وغرائب کا مجموعہ ہے ،اور طویل توضیحات وتشریحات کے باوجود عنقاء کی طرح عنقاء کا عنقا ء ہی رہتاہے۔

کبھی کبھی ہبا کو ہیولیٰ کہہ کر بھی پیچھا چھڑا لیا جاتا ہے، حکماء فلاسفہ قدیم کے علی الرغم ترتیب وجود کے لحاظ سے پہلی بدع وتخلیق عقل اول کی ہوئی اور نفس کلیہ اور طبیعت کلیہ کے بعد کہیں جا کر چوتھے مرحلے میں ہباء کا ظہور ہوا، جس میں سے اجسام واجساو برآمد ہوئے، اور ان کی اشکال وصورکھولی گئیں، اس وجہ سے جسم کلی کا مرتبہ اور درجہ اس کے بعد ہے ،یہ مرتبہ ہبائیہ عام طور پر سمجھ میں آتا نہیں ہے ،اس کو اس طرح بدقت ذہن نشین کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً سواد وبیاض (سیاہی وسفیدی) سمجھ میں آ نہیں سکتی جب کہ اس کو کسی سیاہ وسفید محل مثلاً کپڑے میںحال بنا کر دکھلایا یا سمجھایا نہ جائے ،جہاں تک سیاہی اور سفیدی کا تعلق ہے وہ تو پس پردہ ہی رہتی ہیں لیکن حس بصرونظر، نظریں بچا کر پھر بھی انہیں اسودوابیض کے روپ میں دیکھ لیتی ہے:

ہزاروں بند شیں میرے لیے تھیں ان کی محفل میں
مگر پھر بھی نظر نظریں بچا کر ان سے مل آئی

error: Content is protected !!