ارتقاء روحانی

ارتقاء جسمانی ور وحانی، اشیاء واجسام کا قوانین طبعیہ کے ماتحت تغیرات وتحولات کے ذریعے قدیم شکلوں کو چھوڑکر جدید شکلیں قبول کرنے اورمنازل ترقی طے کرنے کو ’’ارتقاء ‘‘کہتے ہیں۔
جسمانی ارتقاء مخلوق کے صرف جسم وجسمانیت تک محدود ہے، اور عنصری مرکبات میں اس وقت ہوتا ہے جب کہ عناصر باہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں اوران کی متضاد کیفیات میں کسر وانکسار ہو کر ایک درمیانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس ارتقاء کی ابتدا فضائی مکنونات سے ہوتی ہے۔ یہاں عناصر کا اختلاط نامکمل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنی ترکیبی صورت تادیر قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس کے بعد عنصری مرکبات کا قدم آگے بڑھتا ہے اور ان سے معدنیات وجود میں آتے ہیں۔ ان میں عناصر کا اختلاط قوی ہوتا ہے۔ اور جدید صورت نافضہ تادیر قائم رہتی ہے مگر ان میں خارجی عناصر کے بغیر نمو نہیں ہوتا۔ پھر یہ عنصری ترکیب ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور نباتات میں پھولتی پھلتی اور گلکاریاں کرتی ہے۔ پھر اور بلند ہوکر حیوانی زندگی میں قدم دھرتی ہے۔ پھر مزید منازل ترقی و مراحل ارتقاء طے کر کے انسانی مرتبے کے بام رفعت پر پہنچ جاتی ہے جہاں بظاہر جسمانی ارتقاء کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور ارتقاء انسانی کے مدارج طے کرنے کے لیے اس میں فکر وادراک کا ایسا شعلہ اور نور پیدا ہوجاتا ہے،جو تمام موجودات میں ممتاز اورگویا کہ مرتبہ انسانیت کا جو ہر وخلاصہ ہے۔ یہ شعلہ جوالہ، اور نوردرخشاں انسان کو مزید ترقی اور بلندی کی جانب لے جانا چاہتا ہے۔ اگرچہ درجہ انسانیت پر فائز ہوجانے کے بعد انسان کے جسمانی ارتقاء کی منزل ختم ہوچکی لیکن روحانی ارتقاء کی راہیں کھل گئیں، اور انسان کے انسانی ہیکل اور پیکر میں آجانے کے باوجود ابھی انسانی تمیم وتکمیل کے مراحل باقی ہیں اور ا س کو یہاں سے ارتقاء روحانی کی مسافرت کے لیے تیاری کرنی اور قدم بڑھانے ہیں۔

خاتم النبین ﷺ کا نوع انسانی پر عظیم الشان احسان ہے کہ آپ نے ارتقا روحانی کی راہیں بتلائیں اور ان راہوں پر بنفس نفیس گامزن ہوکر ہمارے لیے ایک شاہراہ اور صراط مستقیم قائم کر دی۔
اس ارتقاء روحانی کے سلسلے کی ساری آیات واحادیث کا یکجائی خلاصہ اور ماحصل خدائے واحد کی پرستش نبی اکرم کی کامل اتباع، عقائد حقہ کی پیروی۔ اخلاق فاضلہ وحسنہ سے اتصاف۔ اعمال صالحہ کالزوم اور خدمت خلق ہے۔
انسان قرآن وسنت کی روشنی میں ان راہوں پر چل کر روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات ومراتب طے کرسکتا ہے۔ چنانچہ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق یہ مراتب و درجات حاصل کیے ہیں اور تاقیام قیامت حصول مراتب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، لیکن رسول اللہ ا کے نقوش قدم سے یک سرمو بھی انحراف کے بعد ارتقاء روحانی کی ساری راہیں مسدود اورمنزل مقصود گم ہوجاتی ہے:

مپندار سعدی کہ راہ صفا
تواں رفت جز درپئے مصطفیٰ

اور:

بہ مصطفیٰ برساں خویش راہ کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است

error: Content is protected !!