اعظم الجبال
حکماء وفلاسفہ کو اعظم الجبال یعنی سب سے بلند پہاڑ کی تلاش وجستجو کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب کہ ان کی طرف سے زمین کی کرویت اور اس کی ہمواری اور گولائی کا دعویٰ کیا گیا اس دعوے پر قدح کی گئی کہ زمین ناہموار ہے۔ اس میں گہرے گڑھے اور غار ہیں۔ بلند بلند پہاڑ کھڑے ہیں جن کی موجودگی میں کرویت کا دعویٰ کیسے پایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے۔ اس منزل پر سب سے اونچے اور بلند پہاڑ کی جستجو اور تلاش کا سوال پیدا ہوا۔ چنانچہ اس دور میں پہاڑوں کے جائزے اور پیمائش کے بعد ثابت ہوا کہ جبل نہاوند کرۂ ارضی کا سب سے بلند اور اعظم الجبال ہے اور زمین کی کرویت وگولائی میں سب سے زیادہ یہی خلل انداز ہوسکتا ہے۔ چنانچہ زمین کے قطر اوراعظم الجبال کی بلندی کے مابین نسبت معلوم کی گئی تو اندازہ ہوا کہ اعظم الجبال کی بلندی کا تناسب کرہ ٔ ارض کے مقابلے میں اس قدر ہے کہ جس کا تناسب ایک ذرع کے قطر پر بنائے ہوئے کرہ پر سبع عرض شعیرہ یعنی ایک جوکے دانے کے عرض کے ساتویں حصے کو ہوسکتا ہے، گویا ایک ذرع کے قطر پر جو کرۂ بنے گا اس پر جو کے دانے کے عرض کا ساتواں حصہ عرض شعیرہ جس قدر اس ایک ذرعی کرے کی کرویت میں مخل ہوسکتا ہے۔ اس قدر جبل نہاوند (اعظم الجبال) کرۂ ارض کی کرویت میں خلل انداز ہوگا۔ یعنی برائے نام اور اس قدر قلیل کہ محسوس تک نہ ہوسکے۔ چنانچہ اس دور میں زمین کی کرویت کے دعوے کے ساتھ ساتھ جبل نہادند کو اعظم الجبال مان لیا گیا۔ آج کرویت ارض اور اعظم الجبال کے سلسلے کی تحقیق کس منزل پر پہنچ چکی ہے۔ وہ سب کو معلوم ہے۔