بدیہی

(بدیہیات) ایسا علم جس کا حاصل کرنا نظرو فکر اور کسب پر موقوف نہ ہو ،مثلاً حرارت کا تصور ’’تصوربدیہی ‘‘ ہے ،اور اس امرکا اذعان ویقین کہ آگ جلا دیتی ہے ’’تصدیق بدیہی‘‘ ہے ،اگر طرفین کا صرف تصور ہی یقین کر لینے کے لیے کافی ہو تو ’’تصدیق بدیہی اولی ‘‘ ہے ،جیسے کل کاجزو سے بڑا ہونا ، یا تصور طرفین تو جزم ویقین کے لیے کافی نہ ہو لیکن کسب ونظر سے قطع نظر تصور کسی دوسری شئے کا محتاج ہومثلاً حدس کا احتیاج مند ہو یا تجربے کا یا احساس وغیرہ کا، تو ’’تصدیق غیر بدیہی اولی‘‘ ہے، جہاں تک تلاش وتفحص کیا گیا ہے بدیہیات کی چھ قسمیں متعین ہوسکتیں:

’’اولیات ‘‘جن کے طرفین اور نسبت کا تصور حکم اور جزم کے لیے کافی ہو، کافی نہ ہونے کی صورت میں دیکھا جاتاہے کہ تصور اطراف کے وقت حکم ذہن سے نکل جاتا ہے یا نہیں نکلتا۔

’’فطریات ‘‘میں تصور اطراف کے وقت حکم کے واسطے یا کسی اور ذریعے سے ذہن میں رہتا ہے اس کو ’’قضایا قیاساتہا معہا ‘‘بھی کہاجاتا ہے ۔

اگر تصور اطراف کے وقت حکم کسی ایسے واسطے سے ہوتاہے جو ذہن سے نکل جاتا ہے تو اس واسطے کے حسی ہونے کی صورت میں ’’مشاہدات‘‘ کہاجائے گا۔

اگر حس ظاہری ہے تو’’حسیات‘‘ کہیں گے،اور اگر واسطہ حواس باطنہ سے ہوتو ’’وجدانیات ‘‘کہلائے گا،

اگر حس اور عقل دونوں سے مرکب ہو تو حس سمع کی صورت میں ’’متواترات ‘‘کا نام دیا جائے گا، متواترات میں یہ ہوا کرتا ہے کہ بہت سے لوگوں سے سننے کے بعد عقل فیصلہ کر لیتی ہے کہ اتنے بہت سے افراد جھوٹ پر متفق نہیں ہوسکتے۔

اگر یہ واسطہ حس اور عقل سے مرکب نہ ہو بلکہ عقل حدث کے ذریعہ حکم کرے تو ’’حدثیات‘‘ کہیں گے ۔

اور اگر کثرت تجربہ ذریعہ اور واسطہ ہو تو’’ تجربات‘‘ کہلائے گا الغرض یہ جملہ اقسام شجربد یہیات ہی کے برگ وبار اور ثمرات ہیں۔

error: Content is protected !!