تقدم طبعی
متقدم ہونا، متقدم ومتاخر میں اس قسم کا علاقہ ہونا کہ متقدم کا وجود بغیر متاخر کے ممکن ہو ،لیکن متاخر کاوجود بغیر متقدم کے ممکن نہ ہو۔
تقدم وتاخر کے اقسام میں باہمی اس قدر نازک اور باریک فرق ہے کہ ایک کو دوسرے سے متمیز وممتاز کرنا مشکل ہوجاتاہے ہم نے احتیاط کے ساتھ ان کو منضبط اور ایک دوسرے سے ممتاز کر کے لکھا ہے۔ تاہم طبیعت مطمئن نہ ہوسکی اور ان کے سوابھی بعض اقسام کی طرف انتقال ذہنی ہونے لگا۔ چنانچہ ہم ان تمام اقسام کو ایک دلیل حصر میں محصور کر دینا چاہتے ہیں جس کے ضمن میں تقدم کی اقسام بھی آجائیں گی جو او پر درج نہیں کی گئی ہیں تقدم کے معنی مصدری ’’کسی شئے کا اول ہونا‘‘ ہے ،اب ہم اس کو اس طرح محصور کر یں گے کہ متقدم متاخر کاجامع ہے یا نہیں؟ اگر جامع نہیں ہے تو’’ تقدم بالزمان‘‘ ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تقدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، اگر متقدم متاخر کا جامع ہے تو دیکھناہے کہ متقدم متاخر کی علت تامہ ہے یا نہیں ہے ؟اگر علت ہے تو ’’تقدم بالطبع ‘‘ہے جیسے واحد کا تقدم اثنین پر، یعنی ایک کا تقدم دوپر، اگر متاخر متقدم کا محتاج نہیں ہے تو اب دو صورتیں ہیں:
پہلی یہ کہ تقدم وتاخر بالترتیب ہیں اس طور پر کہ مبدء محدود میں شئے اپنے غیر سے زیادہ قریب ہے، یا بالترتیب نہیں ہیں، اگر بالترتیب ہیں تو ’’تقدم بالوضع ‘‘ہے جو اسی اقربیت سے عبارت ہے او وہ دو طرح پر ہے، ’’طبعی‘‘ ہے اگر مبدا ء محدود وضع اور جعل کے لحاظ سے نہیں ہے ،بلکہ بہ حیثیت طبع ہے جیسے نوع پر جنس کا تقدم، اور ’’وضعی ‘‘ہوگا اگر مبداء وضع اورجعل کے اعتبار سے ہوگا، جیسے محرابِ مسجد کی نسبت سے صف ثانی پر صف اول کا تقدم، اگر بالترتیب نہیں ہیں تو ’’تقدم بالشرف ‘‘ہے جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تقدم حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر۔
متکلمین نے تقدم کی ان اقسام کے علاوہ بھی بعض اقسام کا پتہ چلایا ہے اور اس کو’’ تقدم ذاتی‘‘ قرار دیا ہے جو زمانے کے بعض اجزاء کا بعض اجزاء پر تقدم ہے، جس چیز نے متکلمین کو تقدم ذاتی کا شاخسانہ نکالنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے کہ انہوںنے محسوس کیا کہ بعض اجزاء زمانی کا تقدم بعض اجزاء پر اقسام مذکورہ میں سے کسی ایک تقدم پر بھی صادق نہیں آتا لہذا ناگزیر ہوا کہ وہ تقدم کی ایک اور قسم تقدم ذاتی پیدا کردیں۔
صدر الدین شیرازی نے تقدم کے ان اقسام پر دو اور قسموں کا اضافہ کیا ہے ایک تقدم بالحق دوسرا تقدم بالحقیقت، اس کی بحث بڑی طویل ہے۔
مختصریہ کہ حق جب اسماء سے اور مراتب تنزلات سے جو اشیائے موجودات کے انحاء وشیونات ہیں، بذاتہ متقدم ومتاخر ہوتا ہے اور یہ تقدم وتاخر کسی دوسری شئے کی جانب سے آتا نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ متقدم ومتاخر حق لازمی کی بناء پر متقدم پر متاخر ہوسکتا ہے، لہذا یہ مقام،تقدم بالحق ہوا۔
اب تقدم بالحقیقت کی طرف آیئے: یہ بات ظاہر ہے کہ جاعل ہو یا مجعول اس میں سے ہر ایک کے لیے شیئیت اور وجود کے بغیر چارہ نہیں ،لہذا شیئیت کا شیئیت پر تقدم انصاف بابوجوود ہی کی وجہ سے تو ہے یہی تو ’’تقدم بالحقیقت ‘‘ہے ،جہاں تک تاخر کا تعلق ہے اس کو تقدم پر قیاس کرلینا چاہیے۔