جحط

فقہ حنفی کی مشہور تصنیف (کنزالدقائق)میں ایک جملہ تحریر ہوتا ہے: ’’مسئلۃ البیئرجحط‘‘ یعنی کنویں کے پانی کی پاکی ناپاکی کی تفصیلات اور فقہ کے اس مسئلہ کے اختلافات اس لفظ ’’جحط‘‘ میں پنہاں ہیں۔

صورت مفروضہ یہ ہے کہ ایک شخص جنبی (ناپاک) تھا جس کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ تھی وہ اپنا ڈول یا کوئی چیز نکالنے کے لئے کنویں میں کود گیا، سوال یہ ہے کہ پانی میں گرنے سے وہ شخص طاہر ہوا یا نہیں اس کے جبنی ہونے کی وجہ سے کنویں کا پانی پاک رہا یاناپاک ہوگیا؟ اس صورت حال کے سلسلے میں حنفیہ کے ائمہ ثلاث (امام اعظم، امام ابویوسف، امام محمد رحمہم اللہ) کے مابین جو اختلاف آراپیدا ہوا ان تمام آراء کو اس لفظ’’جحط‘‘ میں سمودیا گیا ہے۔

امام اعظم چونکہ ائمہ ثلاث میں اقدم ہیں، لہذا پہلے ان کی رائے کی جانب لفظ (ج) سے اشارہ کیا گیا ہے ،یعنی کنویں کا پانی اور وہ شخص دونوں ناپاک ہیں ،پانی اس جنبی شخص کی جنابت سے ناپاک ہوگیا ،اور ناپاک پانی اس شخص کو پاک نہیں کر سکتا تھا لہذا وہ ناپاک کا ناپاک ہی رہا۔

امام اعظمؒ کے بعد امام ابو یوسفؒ کا درجہ ہے جن کے مسلک کی جانب بعد کے لفظ (ح) سے اشارہ کیا گیا ہے ،یعنی دونوں اپنے حال پر قائم ہیں ،پانی پاک کا پاک ہے اور وہ شخص ناپاک کا ناپاک ہے۔

امام محمدؒ تیسرے درجے پر ہیں ،لہذا (ط) کے لفظ میں ان کا فتویٰ ظاہر کردیاگیا ہے کہ دونوں طاہر ہیں ،پانی بھی اور وہ شخص بھی جوکہ جنبی تھا ،ان ہرسہ آرا میں سے عملدرآمد اور فتویٰ امام محمد کی رائے پر ہے۔

error: Content is protected !!