حدیث – خبر
حدیث کے لغوی معنی جدید (قدیم کی ضد) ہیں ،دوسرے معنی میں حدیث سے مراد بات چیت ،گفتگویعنی کلام ہے ، خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر ، اصطلاح میں حدیث کی تعریف یہ کی گئی ہے : ’’جس قول ، فعل ، تقریر اور صفت کی نسبت حضور اکرم ﷺ کی طرف کی گئی ہووہ حدیث ہے ‘‘، حضور کی تعلیمات معرض بیان میں ہو تو حدیث ہیں اور معرض عمل میں ہوں تو سنت کہلاتی ہیں، حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے۔
حدیث اور خبر کے درمیان فرق
خبر وحدیث کے سلسلے میں علماء کے تین اقوال ہیں:
۱-جمہورعلمائے اصول کے نزدیک خبر وحدیث دونوں مترادف یعنی ہم معنی ہیں، نیز علامہ خطیبؒ نے بھی خبر کو حدیث ہی کے معنی میں استعمال کیا ہے، اس اعتبار سے خبر وحدیث کے درمیان تساوی کی نسبت پائی جاتی ہے ۔
۲-بعض علماء کا قول ہے کہ جو چیز آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہو وہ ’’حدیث‘‘ ہے، اور جو صحابہ یا تابعین کی طرف منسوب ہو وہ ’’خبر ‘‘ہے، اس تفریق کی بناء پر جو شخص تاریخی واقعات نقل کرے اس کو ’’ اخباری‘‘ کہتے ہیں اور جو آنحضرتﷺ کے قول، فعل، تقریر اور شمائل کو نقل کرے اس کو ’’ محدث‘‘ کہتے ہیں، اس اعتبار سے خبر وحدیث کے درمیان تباین کی نسبت ہے،لیکن تباین کا قول ضعیف ہے ،اسی وجہ سے حافظ ابن حجرؒ نے اسے صیغہ تمریض لفظ ’’قیل ‘‘ سے ذکر کیا ۔
۳-بعض نے دونوں میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت بیان کی ہے، یعنی جو حدیث ہے وہ خبر ہے،لیکن خبر کے لئے حدیث ہونا ضروری نہیں، حدیث خاص اور خبر عام ہے، اور قاعدہ ہے خاص کے ہر فرد پر عام صادق آتا ہے ، لہذا حدیث کو خبر کہا جاسکتا ہے اور عام کا ہر فرد خاص پر صادق نہیں آتا ، لہذا ہر خبر کو حدیث نہیں کہا جاسکے گا، یہی مفہوم ہے’’من غیر عکس‘‘ کا، یعنی ایک جانب سے صدق ہوگا دوسری جانب سے نہیں،حافظ ؒ نے اس قول کو بھی صیغہ تمریض لفظ ’’قیل‘‘ سے بیان فرمایا ہے،گویا مصنف ؒ نےپہلے قول کو ترجیح دی ہے ۔
محدثین لفظ حدیث کو سنت اور خبر کا مترادف شمار کرتے ہیں ،ان کی رائے میں ان تینوں لفظوں کا اطلاق نبی کریم ﷺ کے قول ، فعل ، تقریر اور صحابہ وتابعین کے قول ، فعل اور تقریر پر ہوتا ہے،گویا محدثین کے نزدیک مرفوع ، موقوف اور مقطوع تینوں پر لفظ حدیث کا اطلاق ہوتا ہے،لیکن فقہاء کے نزدیک لفظ حدیث خاص ہے اوراس سے مرادصرف نبی کریم ﷺ کا قول یا کلام ہے ،آپ ﷺ کا فعل اور تقریر اور صحابہ کرام وتابعین کا قول ، فعل اور تقریر لفظ حدیث کی اصطلاحی تعریف میں شامل نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے شرح نخبۃ الفکر میں لفظ ’’خبر‘‘ کو اختیار کرنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ تمام اقوال اور نسبتوں کی رعایت کرتے ہوئے ’’خبر‘‘ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کیونکہ اس کا مفہوم عام ہے تاکہ سب کو شامل ہوجائے ، چونکہ حدیث بعض اصطلاح میں جیسا کہ معلوم ہوا خاص بھی ہے ۔
خبر کی اقسام
یہاں خبر کی اقسام کو اجمالی انداز میں بیان کرتے ہیںتاکہ ایک خاکہ طالب علم کے ذہن میں آجائے ۔
۱-خبر کی یا تو متعدد اسانید ہوں گی کسی معیّن عدد کے بغیر :متواتر۔
۲-یا یہ اسانید معیّن عددکے ساتھ ہوں گی دو سے زیادہ سندوں کے ساتھ :مشہور۔
۳-یا یہ اسانید معیّن عدد کے ساتھ ہوں گی دو سندوں کے ساتھ :عزیز۔
۴-یا یہ اسانید معیّن عدد کے ساتھ ہوں گی ایک سند کے ساتھ ـ:غریب۔
محدثین کے نزدیک پہلی قسم خبر متواتر ہے ،دوسری قسم خبر مشہور ہے ، تیسری قسم خبر عزیز ہے اور چوتھی قسم خبر غریب ہے ، پہلی قسم کے علاوہ باقی تمام اخبار آحاد ہیں۔
اس کا خلاصہ یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ خبر ہم تک پہنچنے کے اعتبار سے اولا دو قسم پر ہے :۱-خبرمتواتر ۲-خبر واحد
۱-خبر متواتر: اگر اس کی سندیں اس حد تک ہوں کہ ان کی تکذیب عادۃ محال ہو تو وہ متواتر ہے۔
۲-خبر واحد: اگر اس کی سندیں متعین ومحدود عد دکے ساتھ ہوں اور تواتر کی حد تک نہ پہنچے تو انہیں اخبار آحادیا خبر واحد کہتے ہیں۔
پھر خبر واحد کی اپنی سندوں کے عدد یعنی قلت وکثرت طرق کے اعتبار سے یا تعدد اسانید کے لحاظ سے تین قسمیں ہیں:
۱- مشہور۲-عزیز۳-غریب