حرکت

ہرموجود شئے کے لیے حرکت ناگزیر ہے کہ وہ یا تو ہر حیثیت سے موجود ہو، اس کے وجود کے سلسلے میں کوئی حالت منتظر ہ باقی نہ رہ گئی ہو، اور اس کی ہر صفت اور ہر کمال قوت کی تاریکی سے نکل کر فعل کی روشنی میں آچکا ہو، ایسا وجود، ایسی ہستی، ایسی شئے صرف ایک ذات حق جل مجدہ‘ ہے اور بس، یا فلاسفہ کی تخیل آفرینیوں کے مطابق عقول مجردہ۔

اس کے بعد جس قدر اور جتنی بھی اشیاء موجود ہیں وہ بعض حیثیات وصفات اور کمالات کے لحاظ سے بالفعل ہیں اور بعض حیثیات سے بالقوۃ، یعنی ان کے صفات وکمالات قوت سے فعل کی طرف آتے رہتے ہیں، قوت کے دائرے سے یہ خروج اور فعل کی حدود کی جانب یہ آمد اگر دفعتاً ہوتو یہ کون وفساد اور انقلاب ہے اور اگر لادفعتاً آہستہ خرامی کے ساتھ بتدریج ہوتو یہ حرکت ہے۔

یونہی عام طور پرنقل مکانی کو حرکت کہاجاتا ہے ،چنانچہ فلاسفہ اس کو تدریجی تغیر سے تعبیر کرتے ہیں خواہ ایک مکان سے دوسرے مکان کی جانب منتقل ہونے سے ہویا ایک صفت کی بجائے دوسری صفت حاصل ہوجانے سے ہو۔

قدیم فلاسفہ نے حرکت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے’’ قوۃ سے فعل کی طرف تدریجاً تدریجاًیا پیراً پیراً (آہستہ آہستہ) یا لا دفعتہً آنا‘‘۔

فلاسفہ متاخرین نے حرکت کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’’ حرکت کمال اول ہے اس چیز کا کہ جو بالقوۃ ہے اس حیثیت سے کہ وہ بالقوۃ ہے۔

error: Content is protected !!