صورت
صورت وہ جوہر ہے جو بذاتہٖ متصل اور ہرسہ جہات طول عرض عمق میں پھیلی ہوئی ہے ،یاو ہ حقیقت جس میں مزید کی قید یا حیثیت کا لحاظ نہ کیا جائے ،یا جس کی وجہ سے شئے دوسرے سے ممتاز ہوجائے۔
یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شئے کی صورت وہ ہوتی ہے جس سے شئے بالفعل حاصل ہوجائے، اس پراعتراض کیا جاسکتا ہے کہ شئے بھی تو آخر صورت ہی ہوا کرتی ہے ،لہذا اس کے لئے ایک اور صورت درکار ہوگی تاکہ وہ دوسری صورت سے ممتاز ہوجائے، اس صورت میں امتیاز جاتا رہے گا اور مزید برآں تسلسل لازم آجائے گا جو محال ہے، اعتراض اس طرح رفع کیا جاسکتا ہے کہ صورت الصورت کوئی جدا گانہ صورت نہیں ہے ،بلکہ وہ تو خود صورت ہی ہے ،جیسے وجود عین وجود ہوا کرتا ہے، نیز جواب میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ صورت امر انتزاعی اعتباری ہے ،اور امور اعتباری انتزاعی میں تسلسل محال ہی کب ہے۔
یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ماہیت حضور علمی کے لحاظ سے صورت ہوا کرتی ہے، اور وہ عینی یعنی وجود خارجی کے لحاظ سے عین ہی ہوتی ہے ،صورت سے ماہیت معلومہ مراد ہوتی ہے ،اور وہ امر بھی مراد ہوتا ہے جو تشخص ذہنی سے متشخص ہوجائے ،صورت کا اطلاق جب کیفیت پر ہو جو آلہ تعقل ہے تو اس صورت میں وہ شخص صورت ہوگی ،اور جب اس معلوم پر اطلاق ہوجس کی وجہ سے وہ ذہن میں ممیز ہوگئی ہے تو کلی صورت ہوگی۔
صوفیاء کرام اور عرفاء طریقت صورت کو امر خفی کے ظہور کا محل قرار دیتے ہیں ،اس بناء پر کہ وہ امر خفی اس صورت کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتا، حق تعالیٰ کے اسماء وصفات پر غور کیا جائے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ سب حق تعالیٰ کی صورومظاہرہ اور ا سکی مطلق ومقدس ذات کے جلوے ہوں گے جو صورتوں کی قید میں آکر ظاہر ہوگئے ہیں ،اسی بنا ء پر جس قدر اعیان ثابتہ ہیں وہ اسماء الٰہی کی صورتیں ہیں اور اعیان خارجی اعیان ثابتہ کی صورتیں ہیں۔