مطلق
جس کا وجود بالذات ہو ،او رجوکسی قید سے مقید نہ ہو ،اور اس سے فرد معین مراد نہ ہو، بلکہ غیر معین واحد مراد ہو، برخلاف مجمل کے کہ اس سے فرد معین مراد ہوتا ہے، طبیعت کو اگر اطلاق کی حیثیت سے لیا جائے تو وہ طبیعت مطلقہ کہلائے گی، اور اگر طبیعت کو محض بحیثیت طبیعت لیا جائے تو مطلق الطبیعت کہلائے گی، اسی سے الشیئ المطق اور مطلق الشیئ، الوجود المطلق اور مطلق الوجود،الحصول المطلق اور مطلق الحصول ،تصور المطلق اور مطلق التصور کے مابین فرق سمجھ لیا جائے ۔
اصول فقہ کی اصطلاح میں مطلق ایسا لفظ خاص ہے جو ذات کو بتائے ،کسی خاص صفت کو نہیں ،جیسےقرآنِ کریم میں سورہ مائدہ میں قسم کے کفارہ میں ارشاد ہوا ہے: ’’تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ‘‘،یہاں رَقَبَۃٌ یہ لفظ ‘‘مطلق ‘‘ہے، اس کے معنی :گردن ، غلام ۔ تو یہ لفظ گردن کی ذات کو بتا رہاہے ، اس کی صفت ( یعنی موٹا ہونا ، پتلا ہونا ، لمبی ہونا)کو نہیں ، یا اس غلام کا کافر یا مؤمن ہونا نہیں بتایا گیا۔
اس کا حکم یہ ہے کہ مطلق اپنے اطلاق پر قائم رہتا ہے ، یعنی جب اس کے اطلاق پر عمل کرنا ممکن ہو تو خبر واحد یا قیاس کے ذریعہ اس کو کسی چیز کے ساتھ مقید کرنا جائز نہیں۔
