النبی الخاتم ﷺ

النبی الخاتم ﷺ

مولانا سید مناظر احسن گیلانی
(پہلی بار مشکل الفاظ کے معانی اور مفید حاشیہ کے ساتھ)
تدوین وحواشی: مفتی عمر انور بدخشانی

کتاب کا تعارف

النبی الخاتم سیرت رسول ﷺ کے موضوع پر اپنے انداز کی ایک منفرد،  نادر اور مشہور کتاب ہے ، اکابر اہل علم کی زبانی اس کا تعارف اور خصوصیات نیچے آپ ملاحظہ فرمالیں گے ، مختلف ادوار میں تحریر کیے جانے والے ان تاثرات میں دو باتیں یکساں طور پر مشترک ہیں

مولانا گیلانیؒ نے واقعات سیرت اس انداز سے بیان  کیے ہیں کہ ان سے قاری کا ذہن خود بخود عظیم الشان نتائج نکالتا چلا جاتا ہے ، اس طرح اس  مختصر سی کتاب میں علوم معارف کے دریا بند ہیں۔

دوسری بات یہ کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والا دل کی دنیا میں بیٹھ کر عشق کی کیفیت کے ساتھ ایک عجیب انداز سے لکھ رہا ہے ، اس کتاب کا مطالعہ کرکے واقعی یہ احساس ہوتا ہے کہ مولانا گیلانیؒ قلم کے بادشاہ تھے ۔

سیرت رسول کی مشہور یہ کتاب اپنے مخصوص ادبی اسلوب، الفاظ کی ندرت اور اختصار کی وجہ سے ایک عام قاری کے لیے کافی مشکل تھی ، کچھ عرصہ قبل زمزم پبلشرز کے روح رواں محترمی مولانا رفیق عبد المجید صاحب زیدہ مجدہ نے فرمائش کی کہ بیرون ملک کے اردو دان طبقے کی طرف سے اصرار ہے کہ اس معروف ومشہور کتاب کو آسان انداز میں پیش کیا جائے تاکہ اس سے استفادہ عام ہوسکے، چنانچہ ان کی خواہش پر یہ کتاب درج ذیل خصوصیات کے ساتھ پیش خدمت ہے ۔

کتاب کے متن میں موجود مشکل الفاظ کے معانی کو قوسین میں اس انداز سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مولانا گیلانیؒ کی تحریر متاثر نہ ہو ، پڑھنے والے کی روانی میں بھی خلل نہ آئے اور اس علمی وادبی شاہکار کتاب کا حقیقی حسن بھی اپنی جگہ برقرار رہے۔

مولانا گیلانی نے گذشتہ مذاہب، تاریخی واقعات و حوادث اور شخصیات کی طرف جا بجا اشارات وکنایات سے کام لیا ہے ، حاشیہ میں ان کی وضاحت بھی کردی گئی ہے ، اضافہ شدہ حواشی کے آخر میں امتیاز کے لیے بطور علامت م ۔ ع ۔ ا درج ہے ۔

کتاب کی تصحیح قدیم نسخوں کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے ، موجودہ مطبوعہ نسخوں میں ایسی غلطیاں بکثرت موجود تھیں جس سے معنی کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں ، مثال کے طور پر موجودہ تمام نسخوں میں ہے ’’ہے کوئی مؤید! جو کوئی پوچھنے والوں کی تسلی دوسروں کی شہادتوں سے نہیں‘‘ جبکہ صحیح یوں ہے ’’ہے کوئی موبّد! (پارسیوں کا مذہبی پیشوا) جو پوچھنے والوں کی تسلی دوسروں کی شہادتوں سے نہیں‘‘۔ یہ اور اس جیسی دیگر کئی غلطیوں کی اصلاح کردی گئی ہے ۔

آغاز کتاب میں قارئین کی دل چسپی کے لیے ’’النبی الخاتم‘‘ کے بارے میں بعض اکابر اہل علم وتحقیق کے ذاتی احساسات وتاثرات کو بھی شامل کیا گیا ہے جن سے اس کتاب کی اہمیت، افادیت اور وقعت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، سرورق پر کتاب کا نام مشہور خطاط سید انیس الحسینی مرحوم کا لکھا ہوا ہے جس کے لیے میں محترمی جناب فیصل صاحب الفیصل لاہور کا بے حد ممنون ہوں، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ، آمین۔

 ۱۴۳۲ عمر انور بدخشانی،۲۷ رجب

النبی الخاتم پر حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے تأثرات

مولانا گیلانیؒ کی تصنیفات میں سے غالبا سب سے پہلے ’’النبی الخاتم‘‘ پڑھی، کتاب عجیب البیلے انداز میں لکھی گئی ہے ، صحف سماوی کا انداز بیان، خطیبوں کا جوش وبرجستگی، عشاق کی مستگی اور وارفتگی، عقل وجذب کی لطیف آمیزش، حسب معمول معمولی اور مشہور واقعات سے لطیف نکتے اور عظیم نتیجے نکالتے چلے جاتے ہیں اور وہ اس سرعت وکثرت کے ساتھ کہ پڑھنے والا مصنف سے شکایت کرنے لگتا ہے کہ دامان نگہ تنگ وگل حسن تو بسیار

میں نے اپنی ساری عمر میں سیرت نبوی میں ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اور ’’النبی الخاتم‘‘ سے زیادہ مؤثر کتاب نہیں پڑھی ، کتاب پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف علم وانشاء پردازی کی کرشمہ سازی نہیں ہے ، اس کے اندر ان کا سوز دروں اور خون جگر بھی شامل ہے اور واقعہ یہی ہے کہ :

رنگ ہو یاخشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف وصوت

معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود

ان سے جب زیادہ ملنا ہوا اور کچھ دن ساتھ رہنا ہوا تو اس حقیقت کی تصدیق ہوئی اور حیدر آباد کے قیام میں خود انہوں نے اپنے بعض واقعات سنائے جن سے بارگاہ رسالت سے خصوصی تعلق ومناسبت اور اس کتاب کی مقبولیت و تاثیر کا راز معلوم ہوا۔

الفرقان لکھنو، افادات گیلانی نمبر ۱۹۵۷، پرانے چراغ جلد ۱، صفحہ ۶۷

النبی الخاتم پر علامہ سید سلیمان ندویؒ کا تبصرہ

النبی الخاتم ایک گلدستہ عقیدت ہے جسے مولانا مناظر احسن کے عقیدت مند قلم نے سجایا ہے ، اس میں مولانا نے اپنے خاص والہانہ رنگ میں سیرت پاک کے واقعات کو ایک خاص انداز وترتیب کے ساتھ پیش کرکے نہایت لطیف نتائج پیدا کیے ہیں، اس حیثیت سے یہ اپنے طرز میں منفرد ہے کہ تاریخی واقعات کو وارفتگی بیان کے ساتھ اس طرح نبھایا گیا ہے کہ ناقد مؤرخین اور ارباب وجد وحال دونوں اپنے اپنے ذوق کے مطابق لطف اٹھا سکتے ہیں ، زبان صاف وسادہ لیکن صنائع لفظی سے مالا مال ہے ۔

ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ، اپریل 1957

النبی الخاتم پر جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے تاثرات

مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی لکھی ہوئی یہ انوکھی سیرت اب پڑھے لکھے طبقے میں تعارف کی محتاج نہیں رہی ، خود راقم الحروف نے اسے بار بار پڑھا اور ہر بار نیا لطف محسوس کیا ہے ، سیرت طیبہ کے اہم واقعات کا ایک نقشہ پہلے سے ذہن میں موجود ہو تو اس کتاب کے مطالعے کا صحیح لطف آتا ہے ، مولانا نے واقعات اس انداز سے بیان کیے ہیں کہ ان سے قاری کا ذہن خود بخود عظیم الشان نتائج نکالتا جاتا ہے ، اس طرح اس مختصر سی کتاب میں علوم ومعارف کے دریا بند ہیں ، ایک مثال ’’جن پر تلوار چلائی گئی وہ نہیں، بلکہ جنہوں نے تلوار چلائی ، انہوں نے مسلمان ہوکر ان جھوٹوں کو جھٹلایا ، جنہوں نے بازاروں میں پھیلایا تھا کہ جو کچھ پھیلایا گیا تلوار کے زور سے پھیلاگیا‘‘۔

اور زبان کی روانی ، شوکت اور جوش وخروش کا تو یہ عالم ہے کہ بار بار پڑھ کر بھی طبیعت سیر نہیں ہوتی، کتاب کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ’’یوں آنے کو تو سب ہی آئے، سب میں آئے ، سب جگہ آئے، سلام ہو ان پر کہ بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے ، لیکن کیا کیجیے ان میں جو بھی آیا جانے کے لیے آیا، پر ایک اور صرف ایک ، جو آیا اور آنے ہی کے لیے آیا، وہی جو آنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا، چمکا اور چمکتا ہی چلا جارہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جارہا ہے، جو پچھلوں میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ الخ

پوری کتاب کا انداز یہی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری کتاب ایک ہی نشست اور دھن میں لکھ دی گئی ہے ، پھر اس اسلوب بیان کے ساتھ صرف سیرت ہی کے نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی بڑی علمی بحثیں چھیڑی گئی ہیں ، بلا شبہ یہ کتاب اردو کے علمی و ادبی ذخیرے کی ایک قیمتی متاع ہے ۔

ماہنامہ البلاغ ، ذیقعدہ ۱۳۸۸ 

النبی الخاتم پر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ کا تبصرہ

سیرت نگاری میں ایک نیا اسلوب جو بیسویں صدی میں پیدا ہوا وہ سیرت کا ادیبانہ اسلوب تھا، ہمارے دور میں یہ انداز شروع ہوا اور اردو کے علاوہ خود عربی میں بھی اس انداز کی کتابیں لکھی گئیں، اس موضوع پر سب سے دل چسپ اور البیلی کتاب جو ادبی انداز سیرت کا بہت عمدہ نمونہ ہے وہ برصغیر کے ایک بزرگ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی ایک کتاب ہے ، مولانا نے ’’النبی الخاتم‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی تھی ، اس میں نہ واقعات میں کوئی ترتیب ہے ، نہ بظاہر اس میں کوئی نئی تحقیق ہے ، لیکن پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا لکھنے والا دل کی دنیا میں بیٹھ کر ایک عجیب انداز سے لکھ رہا ہے ۔

محاضرات سیرت، صفحہ ۶۸۹

3,945 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!