شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا مفتی محمد زرولی خان صاحبؒ

شیخ التفسیر حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب رحمہ اللہ سے تقریبا انیس بیس سال نیازمندی کا تعلق رہا ، اس عرصے میں سینکڑوں بار ان کی خدمت میں حاضری کاشرف حاصل ہوا، ان کی شخصیت اورمزاج میں بہت زیادہ تنوع تھا،مسجد کے قرب کی وجہ سے ان کے پڑوس کا شرف بھی حاصل تھا، امامت کے ابتدائی زمانہ میں تو راقم کو پابند کیا ہوا تھا کہ ہر جمعہ فارغ ہونے کے بعد کھانا ان کے ساتھ کھایا کروں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تخفیف فرمادی ، پھر بعد میں یہ معمول رہا کہ ہر تین سے چار ماہ میں ایک بار ضرور زیارت کا موقع مل جاتا، حاضری میں جب کبھی طویل ناغہ ہوجاتا تو حضرت مفتی صاحبؒ ناچیز پر انتہائی شفقت فرماتے ہوئے خود فون کرکے گلہ شکوہ کرتے ،اور یہ محبت بھرا شکوہ بھی اکثر اشعار کی صورت میں ہوا کرتا تھا ، حالانکہ ان کے سامنے ناچیزکی اوقات ہی کیا تھی ، سوچتا ہوں تو شاید ایسا لگتا ہے کہ وہ ملاقات کے بہانے یا موقع نکال بھی لیا کرتے تھے ، کیونکہ کبھی جب ملاقات میں تاخیر ہوجاتی تو فون کرتے کہ فلاں نئی کتاب آئی ہے ،وہ درکار ہے، جامعہ کے باہر کتب خانوں میں تلاش کرو اور لے کر آو، مفتی صاحبؒ کے پاس خدام اور لانے والوں کی کمی تو نہ تھی ، لیکن بپاس خاطر یہ موقع مجھ ناچیز کو فراہم کردیا کرتے ، قرآن ،حدیث ،فقہ اور تصوف ان چاروں علوم سے بہت زیادہ شغف تھا اور ان موضوعات پر بے پناہ مطالعہ بھی ،ان کی دل چسپی کی کوئی بھی نئی کتاب آتی اس کے حصول کے لیے بے قرار ہوجاتے ، وہ کتاب پاکستان میں ہو یا عرب دنیا میں ، جب تک حاصل نہ کرلیتے قرار نہ آتا ، ناسازی طبع کے باوجود کتب بینی اور مطالعے کا شوق آخری وقت تک عروج پر تھا، ناچیز کے ساتھ حضرت مفتی صاحبؒ کابے پناہ شفقت اور محبت کا معاملہ تھا جو پہلی ملاقات سے لے کر آخری ملاقات تک مستقل برقرار رہا ،اور اس میں کبھی کمی نہ آئی ،ان کی گفتگو علمی ادبی نکات سے بھرپور ہوا کرتی تھی ،حافظہ غضب کا تھا ،ذہانت اورحاضر جوابی بے مثال تھی ، نایاب کتابوں اور ان کے مصنفین کے نام سن وفات اور ان کے معاصرین کے احوال پر بھی عبور رکھتے تھے ، ان کی مجلس میں بیٹھ کر ہمیشہ علمی ذوق وشوق پروان چڑھا ،کسی انسان کے ساتھ بیٹھ کر جب بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کو ملے تو وہ یقینا بہت بڑا انسان ہوتا ہے ،کتابوں اوران کے مصنفین پربہت جاندار خلاصہ اورحاصل پیش کیا کرتے تھے ،جو بہت جامع الفاظ اور تعبیر کا حامل ہوا کرتا تھا، بہت زیادہ دعوی کرنا تو صحیح بھی نہیں لیکن کسی نہ کسی درجہ میں ان کا قرب حاصل رہا ، تعلق اور رفاقت کی اس طویل داستان کو تحریر کرنے کی ہمت نہیں ،بے شمار واقعات اور باتیں ہیں ، جنہیں لکھنے بیٹھوں تو ایک طویل مضمون یا کتابچہ کی صورت اختیار کرلے، سردست پہلی اورآخری ملاقات کا حال سپردقلم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

یہ سن ۲۰۰۲ءکی بات ہے، موقوف علیہ یعنی درجہ سابعہ کا(درس نظامی کا ساتواں) سال ہے ،ظہر کے بعد فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ جلد رابع کا سبق ہوا کرتا تھا، جواستاذمحترم حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب زید مجدہ پڑھایا کرتے تھے، سبق سے فارغ ہو کر جامعہ کے مغربی دروازے سے باہر کتب خانوں کی طرف نکل گیا، اب تو یہاں دینی اسلامی اور درس نظامی کی کتابوں کا پورا بازار ہے ، لیکن اُس وقت کتابوں کی گنی چنی دوکانیں ہوا کرتی تھیں، غالبا کراچی میں اردو بازار کے بعد اَب جامعہ بنوری ٹاؤن کا یہ حصہ دینی ،اسلامی اور درسی کتابوں کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے ، خیر اُس وقت بیروت اور دیگر ممالک کی عربی کتابوں کے لیے کراچی میں صرف غلام محمد صاحب کی دوکان’’مکتبہ عثمانیہ ‘‘ہوا کرتی تھی ، یہ دوکان یا مکتبہ جامعہ کے مغربی دروازے کے سامنے گلی میں اندرجاکر بائیں جانب پتلی سی گلی میں واقع تھی ،باقاعدہ کوئی دوکان نہیں تھی ، ایک چھوٹا دو کمروں کا گھر تھا جو کتب خانہ کی صورت اختیار کرگیا تھا ، یہ جگہ مکتبہ عثمانیہ کے بجائے غلام محمد کے کتب خانے سے مشہور تھی ، غلام محمدصاحب کا کتب خانہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے علماء وطلبہ کا مرجع تھا ، اس زمانہ میں یہاں ملک کے بڑے بڑے علماء تشریف لایا کرتے تھے، پہلے سے طے شدہ وقت یا ملاقات نہ بھی ہو ، اکابر علماء اپنے اپنے وقت اور ترتیب کے اعتبار سے کتاب لینے یا دیکھنے کے لیے آتے اور پھر وہیں ایک محفل سی جم جاتی ، گویا دوکان نہیں بلکہ کتابوں پر تبصرہ کی ایک نشست گاہ یا ادارہ ہو ، چنانچہ اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء کی علمی ادبی محفلوں کی یہاں زیارت ہوئی ، بندہ سبق سے فارغ ہوکر باہر کتب خانوں کی طرف گیا تو کسی نے بتایا کہ غلام محمد صاحب کے کتب خانہ میں مفتی زرولی خان صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں ، ان کا نام تو سنتا آیا تھا، لیکن اس سے پہلے کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا، مفتی صاحب مطالعہ کا ذوق ،اور نایاب کتابوں اور مخطوطات کے جمع کرنےکا بہت شوق رکھتے تھے اوراس حوالے سے کافی مشہور بھی تھے ، واقعتا کئی عربی اور فارسی زبان کی کئی نایاب کتابیں اور مخطوطات جامعہ احسن العلوم کے کتب خانہ میں موجود بھی ہیں، خیال آیا کہ استفادے اور ملاقات کے لیے یہ وقت اور موقع اچھا ہے ،فائدہ اٹھالینا چاہیے ، اندر گیا تو مفتی صاحب کتابوں کی الماری کے پاس کھڑے کسی کتاب کے مطالعہ میں محو تھے ، فارغ ہوئے تو ان سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا اور مختلف کتابوں سے متعلق ان سے پوچھنا شروع کردیا، ایک طالب علم کے ذہن میں یہی سوال سب سے اہم ہوتا ہے کہ کس فن یا موضوع میں کونسی کتاب زیادہ اہمیت رکھتی ہے ، کیا پڑھنا چاہیے اور کیا نہیں وغیرہ وغیرہ ، سنا تھا کہ مفتی صاحب بہت زیادہ جلالی طبیعت کے مالک ہیں ،زیادہ سوالات کیے جائیں تو ناراض بھی ہوجاتے ہیں ، اورجھڑک بھی سکتے ہیں، لیکن اس پہلی ملاقات میں ان کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی ، اورخلاف مشہور تمام سوالوں کے بہت اطمینان کے ساتھ تسلی بخش جواب دیے ، جبکہ راقم ان کے لیےفقط ایک نو وارد اجنبی طالب علم تھا ، شناسائی اور واقفیت بالکل نہ تھی ، اوراس مختصر ملاقات میں تعارف کی ضرورت بھی پیش نہ آئی ،ان کے مزاج میں ظرافت بھی خوب تھی ، بلا کے حاضر جواب تھے ،اوراسی ملے جلے انداز سے جواب بھی دیے ، اتنے میں کسی نے آکر اطلاع دی کہ استاذ محترم قاری مفتاح اللہ صاحب فارغ ہوگئے ہیں اورجامعہ کے مشرقی دروازے پر مفتی صاحبؒ کا انتظارفرمارہے ہیں، مفتی صاحبؒ کوقاری صاحب کے ساتھ کہیں جانا تھا ،وہ غلام محمد سے حساب کتاب میں مصروف ہوگئے اور راقم وہاں سے واپس آگیا، اندازہ ہوا کہ حضرت مفتی صاحب ؒ استاذ محترم قاری صاحب کے انتظار میں وقت گزاری کے بجائے ان کے انتظار میں یہاں کتابیں دیکھنے آگئے تھے ۔

یہاں درمیان میں یہ بتانا ضروری ہے کہ مفتی زر ولی خان صاحبؒ کا ہمارے استاذ حضرت مولانا قاری مفتاح اللہ صاحب سے زمانہ طالب علمی سے ہی بہت زیادہ گہرا تعلق تھا ، قاری صاحب دامت برکاتہم اگرچہ مفتی زرولی خان صاحب ؒسے کچھ سال مقدم اور سینئر تھے ،لیکن زمانہ طالب علمی کا یہ تعلق اگر مسلسل اور مستقل ہو تو یہ فرق مٹ سا جاتا ہے ،چنانچہ مفتی زرولی صاحب ؒ اکثر اسفار میں قاری صاحبؒ کو اپنے ساتھ لے لیا کرتے ، اور جب کبھی ایسا نہ ہوپاتا تو مفتی صاحب کی عدم موجودگی میں قاری صاحب جامعہ احسن العلوم میں جمعہ کی خطابت وامامت کے فرائض انجام دیا کرتے ، دونوں ابناء جامعہ میں سے تھے ، اورحضرت بنوریؒ کے شاگرد اور صحیح معنوں میں عاشق تھے ،حتی کہ ایک طویل دورانیہ ایسا بھی رہا کہ مفتی زرولی صاحب روزانہ گاڑی بھیج کر قاری صاحب کو بلوالیتے اور رات کھانے کے بعد پھر انہیں واپس گھر پہنچوانے کا اہتمام کرتے ،مفتی زر ولی صاحب کی مجلس علمی باتوں اور کتابوں کے تذکرے سے بھرپور ہوتی ، ان کے ساتھ بیٹھ کرمطالعہ کے ذوق وشوق کو مہمیز ملتی ، وہ علمی نکات اور کتابوں کا تذکرہ اتنے والہانہ جوش وخروش سے کرتے کہ مجلس سے اٹھنے کے بعد ہمیشہ یہ احساس دامن گیر ہوتا کہ وقت بہت ضائع ہوگیا، اب سنجیدگی سے کچھ پڑھ لینا چاہیے ، امام العصرعلامہ انور شاہ کشمیری اورمحدث العصر حضرت بنوری رحمہما اللہ کے صحیح معنوں میں عاشق تھے ،کہتے تھے کہ حضرت بنوریؒ نہ ہوتے تو علامہ کشمیریؒ تک پہنچنا اور انہیں سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، فیض الباری اور معارف السنن کے کئی حوالے اور عبارتیں نوک زبان پر ہوتیں، ان کے درس اور بیانات میں اسلاف کے ایمان افروز تذکرے ہوتے ، اپنی مادر علمی جامعہ بنوری ٹاؤن سے بے پناہ محبت تھی جس کا تذکرہ مختلف مواقع اور مجالس میں بار بار کیا کرتے ،ہمیشہ دورہ تفسیر کے اختتام اور ختم بخاری شریف کے موقع پر مادر علمی اور اپنے اساتذہ کرام کے لیے والہانہ دعاؤں کے ساتھ وفا کے عہد و پیماں کی تجدید کرتے ، تمام تر وسعت مطالعہ کے باوجود اکابر علماء کی تحقیق اور ان کےعلمی افادات وملفوظات ان کے لیے سند اور حجت تھے ، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی اورمفتی احمد الرحمن رحمہما اللہ کو اپنا محسن سمجھتے تھے ، مادر علمی جامعہ اور اکابر جامعہ کے قصے اور واقعات اتنے ذوق وشوق سے سناتے کہ محفل پر سناٹا طاری ہوجاتا اور سننے والے بھی محوحیرت ہوجاتے ، طلبہ تعلیم پوری کرکے رخصت ہوجاتے ہیں ، لیکن مادرعلمی سے وفا کے تقاضے نبھانے والے بہت کم ہوتے ہیں ، مفتی زرولی صاحب کی ساری زندگی عہد و وفا سے معمور تھی ، انہیں اپنے استاذ حضرت بنوریؒ اورمادر علمی سے سچا عشق تھا، اوریقینا نسبت بھی اپنا اثر دکھاتی ہے ،شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ نے محدث العصر حضرت بنوری ؒ کے متعلق تحریر فرمایا تھا کہ :

’’حضرت مولانا بنوری کو اللہ تعالی نے حق کے معاملہ میں غیرت وشدت کا خاص وصف عطا فرمایا تھا ، وہ اپنی انفرادی زندگی اور عام برتاؤ میں جتنے نرم ، خلیق اور شگفتہ تھے ، باطل نظریات کے بارے میں اتنے ہی شمشیر برہنہ تھے ،اور اس معاملہ میں نہ کسی مداہنت یا نرم گوشے کے روادار تھے ، اورنہ مصالح کو اہمیت دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔ باطل فرقوں اور نظریات کی تردید میں اللہ تعالی نے مولانا سے بڑا کام لیا ، انکار حدیث کا فتنہ ہو یا تجدد اورقادیانیت کا ، مولانا ہمیشہ ان کے تعاقب میں پیش پیش رہے ، اس کے علاوہ جس کسی نے بھی قرآن وسنت کی تشریح میں جمہور امت سے الگ کوئی راستہ اختیار کیا ، مولانا سے یہ برداشت نہ ہوسکا کہ اس کے نظریات پر سکوت اختیار کیا جائے ، مولانا کو خاص طور سے اس بات کی بڑی فکر رہی تھی کہ علماء دیوبند کا مسلک کسی غلط نظریے سے ملتبس نہ ہونے پائے اور سیاسی سطح پر کسی شخص کے ساتھ علمائے دیوبند کے اتحاد وتعاون سے یہ مطلب نہ لے لیا جائے کہ علماء دیوبند اس شخص کے نظریات کے ہم نوا ہیں ‘‘۔

چنانچہ مفتی زرولی خان صاحب ؒ میں بھی اپنے استاذ اور شیخ کا خاص یہ رنگ پوری طرح چڑھ گیا تھا اور جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مفتی صاحب ؒ دین کے کسی بھی معاملہ میں مداہنت یا نرم گوشے کے روادار نہ تھے ، وہ جو بات حق سمجھتے تھے اس کا ببانگ دہل اظہار فرمایا کرتے تھے ، شاید ان کی بعض آراء سے اختلاف کیا جاسکتا ہو، لیکن ان کے اخلاص وللہیت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔

اب واپس پہلی ملاقات کی طرف چلتے ہیں ، راقم غلام محمد کے کتب خانہ سے نکل گیا ،مفتی زرولی صاحب اور قاری صاحب اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے ، دویا تین دن کے بعد استاذ محترم قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ نے صبح کے وقت میں بندہ کو جامعہ کے کتب خانہ طلب کیا ، راقم کے لیے یہ حیران کن تھا کہ قاری صاحب ایک طالب علم کو بطور خاص کتب خانہ بلارہے ہیں ، اللہ خیر فرمائے ، بندہ حاضر ہوگیا ، قاری صاحب فرمانے لگے کہ اس دن تمہاری مفتی زرولی خان صاحب سے ملاقات ہوئی اور تم نے انہیں اپنا تعارف بھی نہ کرایا ، تعارف کرادیتے تو مفتی صاحبؒ زیادہ خوش ہوتے ،مفتی صاحب تو تمہارے والد صاحب کے شاگرد ہیں (مفتی زرولی خان صاحبؒ نے حضرت والد صاحب زید مجدہ سےمنطق کی معروف کتاب ’’سلم العلوم ‘‘پڑھی تھی) ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ استاذ جی ! پھر آپ کو کیسے پتہ لگا کہ وہ راقم تھا ؟ قاری صاحب نے بتایا کہ تمہارے جانے کے بعد جب مفتی صاحب کے ساتھ ہم روانہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آج تمہارا ایک شاگرد غلام محمد صاحب کے کتب خانہ میں ملا تھا ، اور کافی سارے سوالات کیے ، قاری صاحب کو بھی تجسس ہوا کہ وہ شاگرد کون تھا ؟ انہوں نےمعلومات کی تو بآسانی پتہ چل گیا کہ وہ راقم تھا ، مفتی زرولی خان صاحب ؒ کو جب یہ پتہ لگا تو بہت خوش ہوئے ،ان کو اس بات پر شاید حیرانی بھی تھی کہ اس طالب علم نے اپنا تعارف بھی نہ کرایا ، وہ تو ہمارا اُستاد زادہ ہے ، قاری صاحب نے فرمایا کہ اب تمہارے لیے مفتی زرولی خان صاحب کی طرف سے خصوصی پیغام ہے کہ غلام محمد صاحب کے کتب خانہ سے اپنی مرضی اورذوق کی کوئی بھی کتاب لےلو ، خواہ وہ کتنی ہی جلدوں میں کیوں نہ ہو ، وہ مفتی صاحب کی طرف سے تمہارے لیے ہدیہ ہوگی ، بندہ نے پس وپیش سے کام لیا ، قاری صاحب نے بہت زیادہ اصرار فرمایا ، بلکہ ساتھ ہی یہ حکم بھی دے دیا کہ کتاب لے کر تم مغرب یا عشا کے بعد جامعہ احسن العلوم مفتی زرولی صاحب کے ہاں آجانا ، میں بھی وہیں ہوں گا۔

مفتی زرولی خان صاحب بہت زیادہ کشادہ دل کے مالک تھے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بادشاہانہ مزاج کے حامل تھے تو مبالغہ نہ ہو گا، ہدایا اور تحائف دینے میں بھی شاہانہ انداز رکھتے تھے ، اور دسترخوان بھی ہمیشہ بہت زیادہ وسیع ہوتا تھا ، بیس سالوں میں کئی بار ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا، کم از کم بیس افراد تو ہمیشہ کھانے پر ساتھ ہوا کرتے تھے ، چنانچہ اس موقع پر بھی مفتی صاحب کا اصرار تھا کہ عمر سے کہنا کہ شرمائے نہیں ، اورجتنی بھی جلدوں پر مشتمل کتاب ہو وہ بلا جھجھک میری طرف سے لے لے ،بالآخر بندہ نے ایک کتاب ’’إملاء ما من بہ الرحمن‘‘منتخب کرلی ،اور وہ لے کر ایک دو دن بعد مغرب کے بعد مفتی زرولی خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا ، استاذ محترم حضرت قاری مفتاح اللہ صاحب بھی وہاں موجود تھے ، مفتی صاحب نے بہت زیادہ شفقت کا معاملہ فرمایا ،اور کھانے کے لیے بندہ کوروک لیا، اب وقت موجود تھی ، ڈرتے ڈرتے مفتی صاحب سے فرمائش عرض کردی کہ آپ کی لائبریری دیکھنی ہے اور عمومی لائبریری کے علاوہ جو خاص مخطوطات کی لائبریری آپ نے بنائی ہوئی ہے انہیں دیکھنا ہے ، مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے فورا برادرم مولانا جنید حفظہ اللہ کو بلایا اور حکم دیا کہ جامعہ کے جتنے کتب خانے ہیں وہ سب اسے دکھاو اور تمام الماریوں کے تالے بھی کھلوادو ، یہ جہاں سے مرضی کتاب اٹھائے اور دیکھے، مولانا جنید حفظہ اللہ اس وقت سے تا دم آخر حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں مشغول رہے ، جنید بھائی نے جامعہ احسن العلوم کے تمام کتب خانوں کا تفصیلی دورہ کرایا، اللہ تعالی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)

نکلنے سے قبل بندہ نے وہ کتاب مفتی صاحب کے آگے کردی کہ اس پر کچھ تحریر فرمادیں ، مفتی صاحب میں ظرافت بہت زیادہ تھی فرمایا کہ میں مناطقہ کی انسان کی تعریف کے مطابق حیوان ناطق ہوں، حیوان کاتب نہیں ، مجھ سےکچھ لکھا نہیں جاتا، کچھ بلوانا ہے تو بلوالو میں گھنٹوں بول لوں گا، اور واقعی یہ حقیقت بھی تھی ، مفتی صاحب رمضان کے روزوں میں گرمی ہو یا سردی دورہ تفسیر میں چھ چھ گھنٹے تفسیر قرآن پڑھایا کرتے اور تھکتے نہ تھے ، حتی کہ گزشتہ چند سالوں سے کافی زیادہ بیمار تھے ، سانس کا عارضہ لاحق تھا، مستقل آکسیجن مشین ساتھ رہتی ، بولنے میں دشواری بھی ہوتی، لیکن اس سب کے باوجود بھی اپنے دروس اور اسباق کے فرائض انتہائی ذوق وشوق سے انجام دیتے رہے ، بہرحال بندہ کے اصرار پر مفتی صاحب نے اس کتاب پر چندکلمات تحریر فرمادیے ،وہ کتاب ابھی مل نہیں رہی ،اس کا عکس جلد پیش کرنے کی کوشش کرونگا ۔

یہ مفتی زرولی خان صاحب کے ساتھ بندہ کی پہلی ملاقات کا پس منظر تھا ،لیکن یہ صرف پہلی ملاقات نہ تھی بلکہ ان کی شفقت اور محبت کی بارش کا پہلاقطرہ تھاجوپھر ایسا برسا کہ آخری ملاقات تک برستا چلا گیا۔

کڑے سفر کا تھکا مسافر ،تھکا وہ ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلی ،ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے

**********************

مفتی زرولی خان صاحب نور اللہ مرقدہ سے وابستہ یادوں کا ایک ہجوم ہے جو دو دن سے دل دماغ میں مستقل گردش کررہا ہے ،مضمون یہ سوچ کر شروع کیا تھا کہ پہلی اور آخری ملاقات کی یادوں کے سہارے اپنے کچھ جذبات کا اظہار کردوں گا ، لیکن ضمنا کچھ اور منتشر باتیں بھی ساتھ شامل ہوتی گئیں ،اور مضمون طویل سے طویل ترہوتا جارہا ہے ، فارسی کے مشہور شاعر عرفی نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا ہوگا:

لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم

مفتی صاحب سے آخری ملاقات کی روئیداد سے قبل اس کے پس منظر میں ان کی کتاب دوستی کا ذکر ضروری ہے ،ان کی زندگی کے بہت سے گوشے اور پہلو تھے ،اور ہر ایک اپنی جگہ نمایاں اور ممتاز تھا، سب کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ، لیکن ایک پہلو جو سب پر فائق اور غالب تھا وہ ان کا شوق مطالعہ تھا، مفتی صاحبؒ کا اوڑھنا بچھونا کتابیں تھیں ،سفر ہو یا حضر کتابیں ہر وقت اپنے اردگرد رکھتے تھے ، راقم کا ذاتی تاثر اور احساس ہے کہ مفتی صاحب ؒ کے ساتھ کتابیں ایسے لازم وملزوم تھیں جیسے مچھلی کے لیے پانی ،وہ حقیقی معنوں میں کتابوں کے عاشق تھے ، اپنے ادارہ میں ہوتے ہوئے مختلف احوال اور اوقات کے اعتبار سے جہاں بیٹھنے کا معمول ہوتا وہاں کتابیں زیادہ ہوتی اور دیگر افراد کے بیٹھنے کے لیے جگہ کم پڑجاتی، حتی کہ سفر کے دوران بھی خواہ زمینی سفر ہو یا ہوائی اس میں بھی چند منتخب کتابیں ضرور ساتھ رکھتے، کئی بار ان کی معیت میں اندرون سندھ کے سفر کا شرف حاصل ہوا ، ہمیشہ گاڑی کی پہلی سیٹ کتابوں کے لیے مختص ہوتی ، ویسے تو ان کے پسندیدہ ترین موضوعات میں تفسیر قرآن ، حدیث اور فقہ شامل تھے ، لیکن سفر کی دل چسپی اور تفریح طبع کی مناسبت سے یہ کتابیں ادب وشاعری کی ہوا کرتی تھیں ، جن میں دیوان حافظ ، کلیات سعدی ،دیوان شمس تبریز، دیوان غالب ، کلیات میر تقی میر اور فارسی و اُردو کی دیگر دل چسپ ادبی کتابیں سرفہرست ہوتیں، مفتی صاحبؒ شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے، دوران سفرمذکورہ کتابوں سے مختلف اشعار بڑے ترنم سے پڑھتے ، اور ساتھ ساتھ شاعرانہ نکات وتشریح بھی بیان کرتےجاتے ۔

مفتی صاحب کا قرآن کریم اور دورہ تفسیر سے عشق سب کے علم میں ہے ، کراچی شہر میں غالبا چالیس سال قبل دورہ ترجمہ وتفسیر قرآن شروع کرایا ، اس وقت کراچی شہر تو کیا پورے ملک میں چند جگہوں پر ہی اس کا اہتمام ہوتا تھا، لیکن مفتی صاحب نے زندگی کی آخری سانس تک وہ سلسلہ اسی ذوق وشوق کے ساتھ جاری رکھا جس طرح ابتدائی زمانہ میں تھا، مفتی صاحب نے دورہ تفسیر کے دنوں کے لیے ایک الگ کمرہ خاص کیا ہوا تھا، دورہ تفسیر کی ابتدا سے لے کر آخر تک خاص طور پر اسی کمرے میں قیام فرماتے ، اس کمرہ کو خاص کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں صرف قرآن کریم سے متعلق موضوعات پر کتابیں رکھی ہوئی تھیں ، جن میں تفسیر اور علوم القرآن سے متعلق نادر و نایاب کتابیں ہوا کرتی اورضرورت پڑنے پر ان کی طرف مراجعت فرماتے ، جامعہ احسن العلوم کا جو کمرہ عمومی طور پر ان کے لیے مختص تھا وہ بھی کتابوں سے بھرا ہوا ہوتا، حتی کہ گھرکے ذاتی کمرہ میں ان کی مسہری کا سرہانہ بھی کتابوں سے مزین دیکھا، کچھ لوگوں کو صرف کتابیں جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے ، یہ بھی ایک اچھا شوق ہے ، لیکن مفتی صاحب ؒ نہ صرف یہ کہ نایاب کتابوں کی تلاش اور جستجو میں رہتے بلکہ حصول کے بعد اس کامطالعہ کرکے اس کے اہم اور قابل ذکر مقامات پر سیر حاصل تبصرہ بھی بھرپور کرتے ، ہدایا، تحائف اور مہمانوں کے اعزاز و اکرام کے معاملہ وہ جس طرح فیاض طبع تھے اسی طرح حاصل مطالعہ دوسروں تک پہنچانے میں بھی وہ بہت زیادہ سخی تھے، چنانچہ جن دنوں جو کتاب زیر مطالعہ ہوتی ہر نشست اور محفل میں اس کے متعلق ضرور بتاتے اورگفتگو میں شریک دیگر حضرات کو بھی اس میں شامل کرلیتے ، ان کی محفل اور مجلس کی یہ سب سے خاص بات تھی ، سو مجھ جیسے ناکارہ طالب علموں کو ان کے ساتھ بیٹھ کر بغیر کسی محنت مشقت اور مطالعہ کے بہت سے قیمتی فوائد اور نکات حاصل ہوجاتے ۔

آخری ملاقات پچھلی دوملاقاتوں کا تسلسل یا انہی سے مربوط ہے اس لیے ان کاذکر ہوجائے تو بہتر ہوگا، اسی سال (2020) غالبا جولائی یا اگست کے مہینہ کی بات ہے ، ان کی علالت کا سلسلہ چند سالوں سے چل رہا ہے اور اس میں کبھی کبھار شدت بھی آجاتی ہے ،فوری ہسپتال بھی جانا پڑتا ہے، اسی دوران مفتی صاحب کے درس کا ایک مختصر کلپ سننے میں آیا جس میں وہ آبدیدہ آواز اور دکھ بھرے انداز میں اپنے صاحبزادے برادرم مولانا انور شاہ سلمہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ’’وقت کم ہے ، میری روانگی ہے، سفر طویل ہے، پھر افسوس کروگے ، مجھے ڈھونڈوگے پر میں نہیں ہوں گا‘‘، یہ سن کر ایک دم ایسے لگا کہ جیسے بزبان حال یوں فرمارہے ہوں:

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!

شاید ان کے اس طرح کہنے میں مسلسل بیماری کی آزمائش کا کرب بھی شامل تھا، اور قریبی حلقوں کے علم میں یہ تھا ہی کہ حضرت بیماری سے نبرد آزما ہیں ، اور ایک دن اس دکھ بھرے انداز سے یہ گفتگو اچانک کانوں میں پڑتی ہے تو سننے اور چاہنے والوں کے دل پرفوری اثر ہونا ہی تھا ، اور ایسا ہی ہوا، مادرعلمی جامعہ بنوری ٹاؤن میں بھی اس بات کا ذکر ہوا، وفاکے پیکر مفتی زرولی صاحب کا اپنےاستاذ اور شیخ کے صاحبزادے حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری سے بہت زیادہ تعلق تھا ، ان کے ساتھ بہت زیادہ تواضع اور عاجزی سے پیش آتے ،مفتی صاحب اگرچہ علم اور عمر ہر اعتبار سے بہت بڑے تھے ، لیکن استاذ محترم مولانا سلیمان بنوری صاحب سے جب کبھی کہیں ملاقات ہوتی تو فرماتے کہ آپ میرے استاذ زادے ہیں ، آپ آنے کی زحمت نہ کریں ، مجھے شرمندہ نہ کریں ، میں خود آپ کے پاس مادر علمی حاضر ہوں گا، آخر وقت تک ان کے جذبات، الفاظ اور عملی اظہار ہمیشہ اسی نوعیت کا ہوتا کہ جیسے وہ حضرت بنوری اور اپنے مادرعلمی کا حق اور احسان اداکرنے کے لیے مستقل کوشاں ہیں ، ہمیشہ یہی کہتے کہ جامعہ احسن العلوم مادرعلمی جامعہ بنوری ٹاؤن اورحضرت بنوریؒ کا فیضان ہے ، اساتذہ جامعہ اور بالخصوص مفتی ولی حسن ٹونکی اورمفتی احمد الرحمن (قدس سرھما) کی مجھ پر شفقتیں نہ ہوتیں تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتا، ان کے بیانات اوردروس میں اپنی مادر علمی ، حضرت بنوریؒ اور دیگر اساتذہ کرام کا بہت زیادہ تذکرہ شامل ہوتا، بلندمقام ومنصب تک پہنچنے کے بعد عمر کے آخری حصہ تک مادر علمی اور اپنےاساتذہ کرام کا اتنا زیادہ والہانہ ذکر اور شیفتگی کا انداز بہت کم نظر آتا ہے ، خیر ! استاذ محترم مولانا سلیمان صاحب تک بھی حضرت کے مذکورہ بیان کا یہ حصہ پہنچا ، راقم کے دل میں فوری یہ خیال آیا کہ بہت عرصہ ہوا مفتی صاحب ؒ کی خدمت میں حاضری نہیں ہوئی ، اور اب ضرور جانا چاہیے ، استاذ محترم مولانا سلیمان بنوری صاحب نے بھی ان جذبات کا اظہار فرمایا کہ جلد کسی دن تمہارے ساتھ چلوں گا، چونکہ راقم انہی کے قریب واقع ایک مسجد میں امامت کی خدمت انجام دیتا ہے ، اوران کی زیارت کوکافی دن بھی ہوگئے تھے ، اور مفتی صاحب اپنے مخصوص انداز میں اکثر محبت اور شفقت کے ساتھ یہ شکوہ بھی فرماتے تھے کہ تم پڑوس میں ہو لیکن آتے نہیں ہو، سومجھ سے رہا نہ گیا ، اس لیے اسی دن ہی عشاء کے بعد مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوگیا ، حال احوال دریافت کیا ، ہمیشہ کی طرح مادرعلمی کے متعلق پوچھا ، والد صاحب اورمولانا سلیمان بنوری صاحب (زیدمجدہما) کی خیریت دریافت کی ، ان دونوں کی خدمت میں سلام پیش کرنے کا کہا، ملاقات کے دوران دل میں یہ احساس دامن گیر تھا کہ استاذ محترم مولانا سلیمان صاحب نے ساتھ چلنے کا فرمایا تھا ، لیکن میں اکیلا چلا آیا ، اس کا مداوا کس طرح ہوگا؟! جب مفتی صاحب نے مولانا سلیمان صاحب کے متعلق پوچھا تو فورا یہ خیال آیا کہ وہ ملاقات کے لیے بھی آجائیں گے ، ابھی فون پر رابطہ کرادیتا ہوں تاکہ استاذ صاحب کو تسلی ہوجائے ، چنانچہ ان سے فون پر تفصیلی بات ہوگئی ،مہمان نوازی تو ان کا ممتاز وصف تھا، سو ہمیشہ کی طرح تمام لوازمات پیش کرنے کا حکم دیا ،حضرت بنوریؒ سے وابستہ یادوں اور باتوں کا ہمیشہ ذکرکرتے تھے، سو گفتگو کے دوران راقم نے انہیں بتایا کہ حضرت بنوریؒ کے مشاہیر واکابر کے نام بہت سارے خطوط یا جواب خط مولانا سلیمان بنوری صاحب کے پاس جمع ہوگئے تھے ، اور اب وہ ماہنامہ بینات میں شائع ہورہے ہیں ، کئی قسطیں آچکی ہیں ، آپ کی نظر سے گذریں ؟ فرمایا کہ نہیں ،میرے علم میں نہیں اور علالت کی وجہ سے تسلسل کے ساتھ مطالعہ بھی نہیں کرپارہا ،اب وہ سارے شمارے کہاں ڈھونڈوں گا ، راقم نے عرض کیا کہ میں جلد ہی تمام شمارے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا، مسکراتے ہوئے فرمایاکہ :

وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے

شمارے لانے میں دیر مت لگانا ، تم آتے بھی نہیں ہو اور اب وعدہ کررہے ہو تو غائب ہی ہوجاؤگے ، بندہ نے حامی بھرلی کہ نہیں اب کی بار حاضری میں تاخیر نہیں ہوگی، ملاقات سے فارغ ہوکر واپس چلا آیا، مفتی صاحب ؒ تو ویسے بھی علیل تھے ، مجھے خود وہ شمارے لے کرجلد حاضر ہوجانا چاہیے تھا، لیکن :

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

کے مصداق راقم بھول بھی گیا اور شاید سستی بھی غالب آئی اور مطلوبہ شمارے لے کر نہ جاسکا، غالبا اس ملاقات کو دو یا ڈھائی ماہ کا عرصہ گزرگیا ، ایک دن فون بجا تو دیکھا حضرت مفتی صاحب کی کال ہے ، سلام دعا کے بعد فورا مرزا غالب کے یہ مشہور اشعار سماعتوں سے ٹکرائے:

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

ان سدا بہار اشعار کے ذریعہ گویا بندہ کواحساس دلادیا، راقم کے ساتھ حضرت کا اکثر و بیشتر یہی محبت بھرا انداز تھا کہ جب کبھی ملاقات میں تاخیر ہوجاتی ، حضرت فون کرتے اور شکوہ کے طور پر ہمیشہ کوئی شعرسنا کر گفتگو کا آغاز کرتے ، اس کے بعد بندہ حاضر ہوجاتا، آج بھی ان کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں ، محبت سے فرمانے لگے تم نے وعدہ کیا تھا ، کہاں گیا بینات !! کب تک مجھے حضرت بنوری کے مکاتیب سے محروم رکھوگے !! بندہ اسی دن وہ تمام مکاتیب جو بینات میں شائع ہوچکے تھے ان کا پرنٹ نکلواکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگیا، مطالعہ کے جس ذوق اور شوق کا پہلے ذکر کیا علالت کے باوجود وہ اسی طرح تازہ تھا ، علامہ کشمیری ؒاورحضرت بنوریؒ کے توعاشق تھے ، پڑھے بغیر کیسے رہ سکتے تھے ، علامہ کشمیری اورحضرت بنوری سے وابستہ ہرتحریر اورہرکتاب کا تقریبا مطالعہ کیے ہوئے تھے ، ان کا ہمیشہ یہی معمول تھا کہ اکابر واسلاف کی نسبت سے اس نوعیت کی کوئی بھی چیز آتی اس کا ضرور ذکر فرماتے ، یا ناچیز کو یہ سعادت بخشتے اور میں پہنچادیتا، بہرحال حضرت بنوری قدس سرہ کے وہ غیر مطبوعہ مکاتیب جو پہلے بار شائع ہو رہے تھے اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، طبیعت جیسے ایک دم کِھل سی گئی ہو، اس ملاقات کے بعد بندہ واپس آگیا۔

طویل داستان سرائی کے بعد اب آخری ملاقات کا ذکر آہی گیا، تقریبا تین ہفتے قبل، یعنی ابھی گزشتہ نومبر کے مہینہ کی بات ہے ، عصر کے بعد بندہ کسی کام میں مصروف تھا ، موبائل نہ دیکھ سکا ، مغرب کے بعد دیکھا کہ مفتی صاحب ؒ کی کال آئی ہوئی ہے ، گزشتہ تاخیر اور غفلت پر کچھ شرمندگی بھی تھی اور یہ احساس بھی کہ حضرت کی طبیعت ناساز بھی ہے ، سوچا کہ جوابی فون کے بجائے عشا سے فارغ ہوکران کے پاس چلا جاؤں گا، تجسس بھی تھا کہ مفتی صاحب ؒ نے کس مقصد کے لیے یاد فرمایاہے، عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر دل میں آیا کہ آج بچوں کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں ، وہ اتنی شفقت اور محبت فرماتے ہیں ، ہمیشہ بچوں کا پوچھتے بھی ہیں، مفتی صاحبؒ کی زیارت کرلیں گے اوران سے بچوں کے لیے دعا بھی کرالوں گا، یہ سوچ پہلے ہی آجانی چاہیے تھی ، لیکن قضا و قدر کے معاملات ہی اور ہوتے ہیں ، کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی ، اس کے بعد ان کی زیارت نہ ہوسکے گی، اور اسی لیے آج ہی بچوں کو ساتھ لے جانے کا دل میں خیال آیا، خیر بچوں کولے کر حاضر ہوگیا ، بہت خوش ہوئے ، ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور ان کے حق میں بہت دعائیں فرمائیں ، بندہ نے عرض کیا کہ حضرت آپ کا فون آیا تھا ، فرمانے لگے فون کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت بنوری ؒ کے جو خطوط تم لائے تھے وہ سب پڑھ لیے ، بہت فائدہ ہوا، البتہ اس میں ایک خط غلط نام سے شائع ہوگیا ہے ، حضرت بنوریؒ کافلاں شمارہ میں شائع شدہ خط حضرت مولانا فضل محمد سواتی ؒ کے نام سے شائع ہوا ہے جبکہ اس خط کے مندرجات سے پتہ لگتا ہے کہ وہ خط حضرت مولانا عبد الحق نافع ؒ کے نام ہے ، ہمارے استاذ زادے مولانا سلیمان بنوری صاحب کو میرا پیغام دے دینا کہ وہ آئندہ شمارہ میں اس کی تصحیح کردیں ، اسی غلطی کی اصلاح کے لیے فون کیا تھا ، اس بہانے تم سے بھی بات ہوگئی ، اوریہ تو آج کرامت ہوگئی کہ تم فورا ہی آگئے ، میں دل میں سوچنے لگا کہ مفتی صاحب شدید علیل ہیں ، اس کے باوجود اتنے انہماک سے ان مکاتیب کا مطالعہ کیا ،اور پھر غلطی پر اتنے اہتمام سےمتنبہ بھی فرمایا ، جبکہ یہ خطوط تو پہلی بار شائع ہورہے تھے ، اوراسلاف کے احوال انہیں اس طرح ازبر تھے کہ انہوں نے خط کامضمون دیکھ کریہ بھی بتادیا کہ یہ خط اصل کس کے نام ہے ، ان کی بات بجا تھی ، کمپوزنگ کی غلطی کی وجہ سے نام میں غلطی ہوگئی تھی ، خیر مفتی صاحب کی طبیعت علالت کی وجہ سے بوجھل سی تھی ، تھوڑی دیر گفتگو کے بعد بندہ نے اجازت چاہی ، مفتی صاحب ؒ نے اپنی سابقہ روایت کے مطابق کھانے پر رکنے کا اصرار کیا ، لیکن ان کی طبیعت ایسی نہ تھی کہ بندہ رکتا اس لیے معذرت کرلی ، مصافحہ کرکےکمرے کے دروازے تک پہنچا تھا کہ واپس مڑا ، اوراس خواہش کا اظہار کیا کہ حضرت آپ کا کوئی تبرک اور یادگار میرے پاس نہیں ہے ، کچھ بھی عنایت فرمایے ، مفتی صاحب ویسے تو ہمیشہ ہی ہدایا اور تحائف سے نوازتے تھے ، کبھی کتابوں کی صورت میں تو کبھی خوشبو یا قلم کی صورت میں ، اور انہوں نے اس ناکارہ کو اتنی گنجائش دی ہوئی تھی کہ کبھی خود ہی ان سے فرمائش کردیا کرتا تھا ، لیکن ’’تبرک اور یادگار‘‘ کے الفاظ کبھی نہیں کہے تھے ، اس دن خود بخود پہلی بار یہ الفاظ نکلے ، سامنےہی مفتی صاحب کے عصا رکھے ہوئے تھے ،سنت انبیاء عصا وہ کافی عرصہ سے استعمال کرتے آرہے تھے اور بہت ہی نایاب قسم کے عصا ان کے پاس ہوتے تھے ، فرمایا سردست تویہاں عصا رکھے ہوئے ہیں ، راقم نے عرض کیا حضرت جو آپ مناسب سمجھیں ، چنانچہ خدمت پر مامور برادرم مولانا اکبر سے کہا کہ انہیں ایک عصا دے دو ، اسی دن کوئی تربوز بھی لایا تھا ، مولانا اکبر سے کہا کہ یہ تربوز بھی ان کے ساتھ گاڑی میں رکھوادو، ان سے رخصت لے کر واپس چلا آیا، کسے اندازہ کہ یہ آخری حاضری ہوگی ۔

پیر ۷ دسمبر عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد موبائل پر پیغام آیا ہوا تھا کہ شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب (رحمہ اللہ) انتقال فرماگئے ہیں ، خبر پڑھتے ہی دل دماغ میں گزشتہ بیس سالہ تعلق کی یادیں ایک دم تازہ ہوگئیں ، ان بیس سالوں میں مفتی صاحب ؒکی طرف سے مجھ ناکارہ پر کیا کیا شفقتیں رہیں، شایداسے احاطہ تحریر میں نہ لایا جاسکے، کیا لکھوں کیا نہ لکھوں ، اسی کشمکش میں رہا ، سو پہلی اور آخری ملاقات کی یادیں لکھنے کی ناکام کوشش کی ، درمیان کئی منتشر باتیں اوربھی آتی گئیں، ان کی محبت اور شفقت کا حق تو ادا نہیں کرسکتا ، جذبات کے اظہار کے لیے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھ ڈالے ،مفتی صاحب ؒ کی ساری زندگی قرآن وسنت کے علوم کی اشاعت سے عبارت تھی ، اور یہی ان کی روحانی غذا بھی تھی، وہ جمہور اسلاف واکابر کی مسلمہ تحقیقات کو سرمہ چشم جانتے تھے ، اورساری زندگی اسی کی دعوت وتبلیغ میں مصروف عمل رہے ، مفتی صاحب ؒ تو اس عالم سے رخصت ہوگئے ، لیکن بیس سال قبل ان کی زیارت اور استفادہ کے لیے ایک طالب علم مکتبہ عثمانیہ میں حاضر ہوا تھا وہ آج تک ویسا کا ویسا ہی تہی دامن ہے، مفتی زرولی خان صاحب نوراللہ مرقدہ ہمارے درمیان نہیں رہے ، مگر ان کی یادیں اور فیوض وبرکات ہمارے درمیان موجود ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں بھی ان کی طرح آخری دم تک قرآن وسنت کے علوم کا عاشق ، داعی اور خادم بنائے ، آمین ۔

لکھنا تو مجھے آتا نہیں ، لیکن داستان سرائی لمبی ہوتی چلی گئی ،بقول اقبال:

بحرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از ذوقِ حُضوری طول دادم داستانے را
ز مُشتاقاں اگر تابِ سخن بردی نمیدانی
مُحبت می کند گویا نگاہِ بے زبانے را !

سارے جہان کی تمنا ایک حرف میں تو کہی جا سکتی ہے، لیکن میں نے ذوق حضوری کے خاطر داستان کو بہت طول دے دیا،مُشتاقوں سے بولنے کی قوت اگرچہ سلب کر لی گئی، مگر تم شاید یہ نہیں جانتے کہ محبت بےزبان کی نگاہ کوقوت گویائی عطا کر دیتی ہے۔

4,209 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!