شیخ اکبر ابن عربیؒ اور نزول عیسی علیہ السلام، از مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ

رئیس المکاشفین شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی الطائی المغربی المالکی (م ۶۳۸ھ) نے اپنی کتابوں میں حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع ونزول کی جا بجا تصریحات فرمائی ہیں :

فتوحات مکیہ باب ۳۶۷ میں حدیث معراج کے ذیل میں لکھتے ہیں :

فلما دخل إذا بعیسی علیہ السلام بجسدہ وعینہ ، فإنہ لم یمت إلی الآن ، بل رفعہ اللہ الی ھذہ السماء واسکنہ بہا (الیواقیت والجواھر ص۳۴ج۲)۔

ترجمہ: پس جب آپ ﷺ اس آسمان میں داخل ہوئے تو عیسی علیہ السلام کو بعینہ اسی جسم کے ساتھ دیکھا ، کیونکہ وہ اب تک مرے نہیں ، بلکہ اللہ تعالی نے ان کو اس آسمان پر اٹھالیا، اوراس آسمان میں ان کو ٹھہرایا۔

اورفتوحات مکیہ کے باب ۷۳ میں لکھتے ہیں:

فإنہ لا خلاف أن عیسی علیہ السلام نبی ورسول وأنہ لا خلاف أنہ ینزل فی آخر الزمان حکما مقسطا عدلا بشرعنا(فتوحات مکیۃ ص ۳ ج۲)۔

ترجمہ بے شک عیسی بن مریم نبی ورسول ہیں اور یقینا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ آخری زمانہ میں حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے ، اور ہماری شریعت کے مطابق عدل کی حکومت کریں گے ۔

نیز باب ۳۵۳ میں لکھتے ہیں:

وقد جاء الخبر الصحیح فی عیسی علیہ السلام وکان ممن أوحی إلیہ قبل رسول اللہ ﷺ أنہ اذا نزل فی آخر الزمان لا یؤمنا إلا بنا أی بشریعتنا وسنتنا مع أنہ لہ الکشف التام إذا نزل زیادۃ علی الإلھام الذی یکون لہ کما لخواص ھذہ الأمۃ (یواقیت ج۳ ص ۸۴)۔

ترجمہ:اور صحیح حدیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں جن کی طرف ہمارے رسول اللہ ﷺ سے قبل وحی نازل ہوئی تھی تھی ۔۔۔۔۔آتا ہے کہ جب وہ آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو وہ صرف ہماری شریعت وسنت کی پیروی کریں گے ، باوجودیکہ جب وہ نازل ہوں گے تو ان کو الہام سے بڑھ کر کشف تام ہوگا۔

اورشیخ اکبر ابن عربی کی طرف منسوب ’’تفسیر ابن عربی ‘‘ میں سورہ آل عمران کی آیت : انی متوفیک ورافعک الی ‘‘ کی تفسیر میں ہے :

إنی متوفیک أی قابضک إلی من بینہم ورافعک إلی أی إلی سماء الروح فی جواری (ج۱ص ۱۱۴)۔

ترجمہ: اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تجھے یہود کے درمیان سے اپنے قبضہ میں لے کر روح کے آسمان کی طرف اپنے جوار میں اٹھانے والا ہوں ۔

آگے لکھتے ہیں کہ یہود نے عیسی علیہ السلام کو پکڑنے کے لیے ایک شخص کو بھیجا ، اللہ تعالی نے آپ کی شبیہ اس پر ڈال دی ، انہوں نے اسے عیسی سمجھ کر قتل کردیا اور صلیب دی ۔

واللہ رفع عیسی إلی السماء الرابعۃ (ج۱ص۱۱۵)۔

ترجمہ: اور اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر اٹھالیا۔

اسی تفسیر میں سورۃ النساء کی آیت ’’وان من اہل الکتاب ‘‘الخ کے ذیل میں ہے :

رفع عیسی علیہ السلام اتصال روحہ عند المفارقۃ عن العالم السفلی بالعالم العلوی ۔۔۔ولما کان مرجعہ إلی مقبرہ الأصلی ولم یصل إلی الکمال الحقیقی وجب نزولہ فی آخر الزمان بتعلقہ ببدن آخر، وحینئذ یعرفہ کل أحد فیؤمن بہ أھل الکتاب أی أھل العلم العارفین بالمبدأ والمعاد کلھم عن آخرھم قبل موت عیسی بالفناء فی اللہ (ج۱ص ۱۶۵)۔

ترجمہ:عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی وجہ سے ان کی روح عالم سفلی سے جداہوکر عالم علوی سے متصل ہوگئی ۔۔۔اور چونکہ ان کو اپنے اصلی مستقر پر واپس آنا تھا اوراس کمال حقیقی تک (جو اللہ تعالی نے ان کے لیے تجویز فرمایا ) ابھی نہیں پہنچے ، اس لیے آخری زمانہ میں ان کا نزول دوسرے بدن سے متعلق ہوکر واجب ہوا، اس وقت ان کو ہر شخص پہچان لے گا، پس اہل کتاب جو مبدا ومعاد کے عارف ہوں گے سب کے سب ان پر ایمان لائیں گے ان کی موت سے پہلے ۔

فائدہ: یہاں دوسرے بدن سے متعلق ہوکر کا یہ مطلب نہیں کہ عیسی علیہ السلام کی روح بطور تناسخ کسی اور بدن میں حلول کرے گی ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس وقت ان کے بدن پر آثار ملکوتی کا غلبہ ہے ، اور جب ان کا نزول ہوگا تو آثار بشری نمایاں ہوں گے ۔

اسی تفسیر میں سورۃ الزخرف کی آیت ۶۱ ’’وإنہ لعلم للساعۃ‘‘ کے ذیل میں ہے :

أی أن عیسی مما یعلم بہ القیامۃ الکبری وذلک أن نزولہ من أشراط الساعۃ(ج۲ص۲۱۹)۔

ترجمہ: یعنی عیسی علیہ السلام کے ذریعہ قیامت کبری(کے قرب) کا علم ہوگا ،کیونکہ آپ کا نزول قیامت کی علامات میں سے ہے ۔

ماخوذ از : تحفہ قادیانیت ، جلد سوم ، صفحہ ۱۰۷ تا ۱۱۰

3,084 Views

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!