شیخ اکبر ابن عربیؒ کی طرف منسوب خلاف شریعت اقوال میں راہ اعتدال ، از مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل و ترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی
تعارف: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے شیخ اکبر ابن عربی رحمہ اللہ کے دفاع میں ۱۳۴۶ھ میں ’’تنبیہ الطربی فی تنزیہ ابن العربی ‘‘کتاب تحریر فرمائی ، اورابن عربیؒ پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کے جوابات ابن عربیؒ کی اپنی کتابوں سے دیے ،کتاب تنبیہ الطربی کے شروع میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے جو تمہید تحریر فرمائی اس میں شیخ اکبر ابن عربیؒ کی طرف منسوب اقوال سے متعلق نہایت متوازن توجیہ بیان فرمائی ، ابن عربی ؒ سے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی وہ تمہید یہاں تسہیل کرکے پیش کیا جارہا ہے ۔
تمہید
بعد حمد و صلوۃ ، صوفیائے امت میں سے شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے سے لے کرآج تک خصوصیت کے ساتھ ایک معرکۃ الآراء اختلافی مسئلہ رہے ہیں ، اور اس اختلاف کا منشا ان کی طرف منسوب بعض ایسے اقوال ہیں جن کا ظاہر شریعت کے خلاف ہے بعض نے ان اقوال کو خلاف شریعت دیکھ کر انہیں گمراہ کہا ، بعض نے ان کے تاریخی احوال پر نظر کرکے انہیں اولیاء میں شمار کیا ، اور ان کے ان ہی فضائل وکمالات اوردیگر علوم ومقالات کو دیکھ کر ان وہم میں مبتلا کرنے والے اقوال میں سے ان کی طرف بعض کی نسبت کا انکار کیا،اور بعض (اقوال) میں ان کی اصطلاحات پر نظر کرکے تاویل کی ، اور بعض میں ثابت کردیا کہ وہ شریعت میں مسکوت عنہا ہیں (شریعت ان کے متعلق خاموش ہے،لیکن وہ)شریعت کے مخالف نہیں، اور (ابن عربی کے) یہ سب اقوال کشفی علوم کے ابواب میں سے ہیں ، باقی علوم معاملہ (عمل سے متعلق علوم) میں ان سے ایک قول بھی ایسا نقل نہیں کیا گیا (جو شریعت کے خلاف ہو)۔
چونکہ احقر کو جب سے اہل اللہ کی صحبت نصیب ہوئی ہے اورالحمد للہ بچپن ہی سے نصیب ہوئی ہے ، علوم تصوف میں سے صرف علوم معاملہ ہی سے عقلی دل چسپی رہی ، کیونکہ امر ونہی کا تعلق انہی سے ہے ، اور ان ہی پر عمل کرنے کو قرب حق (رضائے خداوندی) میں دخل ہے ، اور کشفی علوم میں اگرچہ طبعی لذت آتی تھی ، مگر عقلی رغبت نہیں ہوئی ، کیونکہ ان کو قرب (رضائے خداوندی) میں کچھ دخل نہیں ، اور کشفی علوم میں اس قدر شدید خطرہ ہے کہ ان کی بعض غلطی ایمان تک کی مزیل ہوجاتی ہے (ایمان زائل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ، اللهم احفظنا) اسی لیے حضرت شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہورکتابیں بھی دیکھنے کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوئی ، اور نہ کسی ایسی کتاب کو قصدا دیکھا، اتفاقا متفرق طور پر نظر سے گزرجانا اس سے مستثنی ہے ، البتہ اپنے بزرگوں کو چونکہ دیگر ائمہ طریق کی طرح شیخ ابن عربی کابھی معتقد پایا ،اس لیےان کی عقیدت وعظمت ہمیشہ قلب میں مرکوز رہی ، اور فطرتا بھی صوفیہ کی جماعت کی طرف قلب کو ہمیشہ میلان ورجحان رہا ہے (اور فطرتا بھی دل ہمیشہ صوفیہ کی جماعت کی طرف مائل رہاہے) اور شرعی قواعد (کی رو) سے بھی اس مذاق (مزاج) کو احوط واسلم (احتیاط اورسلامتی کا سبب) سمجھتاہوں ، کیونکہ حسن ظن کے لیے ’’صلاحیت‘‘ (صلاح) کا احتمال بھی کافی ہے ، اور مذکورہ احتمال کے ہوتے ہوئے بدگمانی شرعا ممنوع ہے ،مگراس کے ساتھ ہی تاویل کے بعد بھی ایسے اقوال کے متعلق یقینی اعتقادکو یا شدید ضرورت کے بغیر ان کے مطالعہ یا نقل اور بالخصوص ان کی اشاعت کو ،پھر خاص طور پر غیر محقق کے لیے ناجائز سمجھتا رہا ، اور حضرت عارف رومیؒ کے اس ارشاد کو اپنا مسلک (بنائے ) رکھا
نکتہ ہا چوں تیغ پولاد ست تیز چوں نداری تو سپر واپس گریز پیش این الماس بے سپر(فہم) میا کز بریدن تیغ را نبود حیا لقمہ ونکتہ است کامل را حلال تو نہ کامل مخور می باش لال ظالم آن قومے کہ چشمان دوختند از سخن ھا عالمے را سوختند
ترجمہ: نکتے فولادی تلوار کی طرح تیز ہوتے ہیں ، اگر تمہارے پاس ڈھال نہیں ہے تو واپس لوٹ جاؤ ، الماس جیسے قیمتی پتھر کے پاس بغیر ڈھال کے مت آو ، کیونکہ تلوار کاٹنے سے شرم و حیا نہیں کرتی، کامل کے لئے جائز ہے کہ لقمہ اور نکتہ ہضم کرسکے ، تم چونکہ کامل نہیں ہو اس لئے خاموش رہو، ظالم ہے وہ قوم جو آنکھیں جمائے رکھے اور اپنی باتوں سے دنیا کو جلادے
سب سے پہلے ایسے مضامین کے مختصر مگر متصل ومسلسل مطالعہ کا اتفاق ۱۳۳۸ھ میں اس موقع پر ہوا جب ’’فصوص الحکم‘‘ کی شرح ’’خصوص الکلم‘‘ لکھنا شروع کی ، جس کی وجہ اس کے خطبہ میں مذکور ہے ، اور جس کو ’’الحل الاقوم‘‘ کی صورت میں صرف بعض مقامات کی شرح پر اکتفا کرکے درمیان میں چھوڑ دیا گیا ، اس میں زمانہ میں مجھے ان مضامین سے جو توحش (بے رغبتی) اور انقباض ہوتا تھا وہ عمر بھر یاد رہے گا، بعض مقامات پر قلب کو بے حد تکلیف ہوتی تھی ، چنانچہ اس جز میں کہیں کہیں میں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے ،اوریہی بات اس شرح کو (درمیان میں) چھوڑ دینے کی ایک وجہ بھی تھی، اس واقعہ کو قریب سات سال ہوگئے کہ اپنے قدیم مسلک کے موافق پھر اس طرف توجہ نہیں کی ، مگر موجودہ دنوں میں دل پر اچانک وارد ہوا کہ شیخ ممدوح الصدر (ابن عربی) کے کلام کی شرح جس غرض سے کی جاتی تھی کہ لوگ نہ تو خود گمراہی میں مبتلا ہوں اور نہ ہی شیخ ابن عربی کو گمراہ کہیں ، یہ غرض اگرچہ تفصیلی طور پر اُس شرح ہی سے حاصل ہوتی جو کہ مکمل نہیں ہوئی ، مگر اجمالا ایک دوسرے طریقہ سے بھی حاصل ہوسکتی ہے ، وہ یہ کہ خود شیخ ابن عربی کے کلام سے وہ (صحیح) حقائق جمع کیے جائیں جو ان وہم میں مبتلا کرنے والے (نزاعی) اقوال کی ضد اور معارض ہیں ، چونکہ ایک ہی قائل کے کلام میں تعارض ہونا خلاف اصل ہے جبکہ وہ عاقل ہو ،پھرخصوصا جبکہ عالم اور متدین اورصاحب کمال بھی ہو،(چنانچہ شیخ ابن عربی کے متعارض اقوال میں) جمع وتطبیق کی دو ہی صورتیں ہیں
پہلی صورت: یا تووہ اقوال کہ جن کی دلالت ظاہر اور صحت قطعی ہو انہیں (ابن عربیؒ) ان اقوال کی روشنی میں دیکھا جائے کہ جن اقوال کی دلالت احتمالی ہو اوروہ باطل [معنی] کے وہم میں مبتلا کرنے والے ہوں۔
دوسری صورت: یا اس کے برعکس کیا جائے ، یعنی (ابن عربیؒ کے) وہ اقوال کہ جن کی دلالت احتمالی ہو اور ان کے باطل ہونے کا وہم ہو انہیں ان اقوال کی روشنی میں دیکھا جائےکہ جن کی دلالت ظاہر اور صحت قطعی ہو ۔
ظاہر ہے کہ پہلی صورت عقلی اور نقلی دونوں اعتبار سے رد ہوتی ہے ،سو دوسری صورت قبول کے لیے متعین ہوگی،بلکہ یہ طریقہ کہ شیخ ابن عربی کےاپنے کلام کے ذریعہ ہی انہیں اعتراضات سے بری کیا جائے، تاکہ لوگ نہ تو خود گمراہی میں مبتلا ہوں اور نہ ہی شیخ ابن عربی کو گمراہ کہیں اوراس غرض کے حصول میں جمع وتطبیق کا یہ طریقہ شرح وتفصیل سے بھی زیادہ مفید اور قوی ہے کیونکہ اہل البیت ادری بما فیہ (گھر والا ہی اپنے گھر کی چیزوں سے زیادہ باخبر ہوتا ہے)۔
چنانچہ شیخ کے ساتھ بدگمانی اور ان کے کلام کو ظاہر پر محمول کرنے کی وجہ سے جو شیخ کو گمراہ کہا گیا ، اس کا خاتمہ اس طرح ہوجائے گا کہ ان کے دوسرے (صحیح اوردرست) اقوال اس بدگمانی کو ختم کرنے والے ہیں ، اور شیخ کے ساتھ خوش گمانی اور ان کے کلام کو ظاہر پر محمول کرنے کی وجہ سے لوگوں میں جو گمراہی پیدا ہوئی اس کا خاتمہ اس طرح ہوجائے گا کہ دوسرے (صحیح) اقوال ان (نزاعی) اقوال کی دلالت کو مشتبہ کردیں گے، اور اگر ایک قسم کے اقوال کو دوسری قسم کے اقوال کی روشنی میں نہ بھی دیکھا جائے اور(صحیح وغلط ہردو) اقوال کی تاریخ سے لاعلمی کی وجہ سے ہر قول کے مقدم اور مؤخر ہونے کواحتمالی کہا جائے تب بھی انجام کار اشتباہ ہی کی حالت رہے گی ، جس کا تقاضہ احتیاط ہے ، اور ظاہر ہے کہ احتیاط یہی ہے کہ ایسے خلاف ظاہر اقوال سے نہ تو ابن عربی پر طعن ہو اور نہ ان سے استدلال کیا جائے ، بلکہ اصول کا تقاضہ یہی ہے کہ جو اقوال بظاہر درست ہیں انہیں ’’اصل‘‘ کہا جائے ، اور جو اقوال بظاہر خطا ہیں انہیں اصل کا تابع قرار دیا جائے جیسا کہ الحل الاقوم میں تفسیر روح المعانی سے منقول ہے کہ :
وقد قالوا اذا اختلف كلام امام يؤخذ منه بما يوافق الادلة الظاهرة
بہرحال جمع وتطبیق کا یہ طریقہ فریقین کے لیے مفید ہے ،اور یہی طریقہ شریعت کی حقیقت اور اولیاء وصوفیاء کی حفاظت کا جامع ہے ، اس قلبی وارد پر بھی غالبا شرعی اقامت کی مدت (پندرہ دن) گزر گئی ، کچھ وقت کی کمی سے ، کچھ طبیعت کی سستی سے دفع الوقتی (تاخیر) ہوتی رہی ، مگر جب تقاضا زیادہ ہوا تو بنام خدا آج بیٹھ ہی گیا اور تمہید کی یہ سطریں لکھ لیں ، اللہ تعالی مقصوم کو تمام کرنے میں مدد فرمائیں ، (آمین )۔
مقدمہ میں بعض ضروری مختصر تنبیہات ہوں گی ، فصل اول محققین صوفیہ کا مسلک علوم شریعت کی اتباع میں ، فصل دوم شیخ کے کمال پر اساطین (اکابر) امت کی شہادت ، فصل سوم صوفیا کی جماعت اور تصوف کے ساتھ کیا معاملہ رکھنا چاہیے ؟ چوتھی فصل میں شیخ کے کلام سے وہ حقائق جمع کیے گئے ہیں جو وہم میں مبتلا کرنے والے(نزاعی) اقوال کے معارض ہیں ، اور ان نزاعی اقوال کی نسبت شیخ کی طرف ثابت ہے یا غیر ثابت ہے بہرحال ان کی وجہ سے شیخ پر اعتراض و انکار ہوا ہے ، گویا شیخ ابن عربی پر واقع ہونے والے اعتراضات کا جواب خود شیخ ہی کے اقوال سے ہوجائے گا ، اور اصل مقصود تو صرف یہی جوابات ہیں مگر بعض بعض مقامات پر دوسرے جوابات بھی زائد شامل کردیے گئے ہیں
شیخ اکبر ابن عربیؒ کی کتاب فصوص الحکم کا تعارف نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ فرمایے