اعدام ازلیہ

اعدام ازلیہ وہ کہلاتے ہیں جن کی ابتدانہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ اعدام اس کے صالح ہی نہیں ہوتے کہ ارادے اور مشیت کا اثربن سکیں۔ لہذاکسی شئے کا عدم پر مستمر اور باقی رہنا عدم مشیت فعل کے بقاء پر موقوف ہے۔ اور اسی کی طرف مستند ہوتا ہے۔ بنا بریں عالم ازلی کا عدم ارادے کے تحت داخل ہی نہیں ہے۔ حق تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادے کا تعلق صرف موجودات کے ساتھ ہے اس لیے کہ حوادث کے اعدام اگر ارادے سے مسبوق ہوں تو وہ آپ سے آپ حادث ہورہیں گے ،کیونکہ ارادے کا اثر سب کے نزدیک حادث ہے۔ اس سلسلے میں سنداً سید السند جرجانی کا وہ قول پیش کیا جاتا ہے جوشرح مواقف میں درج ہے کہ ’’عدم وجود کی طرح قادر مطلق کا اثر مجعول ہے ہی نہیں بلکہ عدم کا استناد اور جاعل کی طرف اس کی نسبت کے معنی یہ ہیں کہ جاعل کی مشیت اس کو فعل کی جانب لانے کے لیے متوجہ اور متعلق ہی نہیں ہوئی۔ چونکہ مشیت جانب فعل متعلق اور متوجہ ہی نہیں ہوئی اس لیے وہ چیز یعنی عدم وجود وفعلیت ہی میں نہیں آیا۔ کیونکہ قادر مطلق وجاعل کے مخلوق ومجعول اول نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ارشاد گرامی ’’ماشااللہ کان ومالم یشاء لم یکن‘‘ پر غور کریں گے تو واضح ہوجائے گا کہ حق تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کی طرف عدم کے استناد ومنسوب ہونے کا سوال ہی خارج از بحث ہے۔ دیکھیے نبی کریم نے عدم فعل کا استناد تو عدم مشیت کی جانب فرمادیا لیکن مشیت کا عدم کی جانب استناد نہیں فرمایا۔ لہذاصاف نتیجہ نکل آیا کہ کسی شئے کے ارادے کا عدم خود اس شئے کی عدم کی علت اور سبب ہوا کرتی ہے۔ یہیں سے ایک اور دلیل بھی مل گئی کہ اعدام اردے کے ساتھ متعلق اور اس کے معلول نہیں ہوتے کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں یہ خرابی لازم آجائے گی کہ معلول واحد شخصی پر دو علتوں کا توارد ہوجائے جو بجائے خود محال ہے۔

error: Content is protected !!