Sample Page

مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ

تحریر: مفتی عمر انور بدخشانی

حضرت بَنوریؒ کے شاگرد رشید
مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

حضرت مولانا امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ کا نام پہلی بار کب سنا ،یہ ٹھیک سے یاد نہیں ،لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ کی ملاقات اگرچہ بہت تاخیر سے اور بہت مختصر دورانیے پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن وہ آپ کے دل دماغ کو اپنے اخلاق ،کردار اور گفتار سے متاثر ضرور کردیتے ہیں، مولانا امین اورکزئی صاحب ؒکی شخصیت بھی بندہ کے لیے کچھ ایسی ہی تھی ،جن کی صحبت اور زیارت بہت کم نصیب ہوئی ، لیکن ان کا تذکرہ خیر ہمیشہ اپنے اساتذہ کرام سے بارہا سنا،حضرت بنوری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد امام اہل سنت مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ کے دور اہتمام میں وہ اپنے علاقے ھنگو(کوہاٹ) واپس چلے گئے تھے، لیکن قلبی وروحانی طور پر وہ کبھی بھی اپنے آپ کو حضرت بنوریؒ اور جامعہ سے دور نہ رکھ سکے، مولانا امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ اگرچہ جامعہ سے جانا تو نہیں چاہتے ہوں گے ،لیکن راقم کا ذاتی تاثر یہ ہے کہ اپنے شیخ استاذ حضرت بنوریؒ کی آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے یہ فراق بھی بادل نخواستہ برداشت کیا ، چونکہ ہم نے اپنے اساتذہ کرام سے بارہا سنا کہ حضرت بنوری ؒ بسا اوقات یہ تمنا کیا کرتے کہ :’’کاش ! میں گمنام ہوتا ، کسی گاؤں دیہا ت میں ایک گمنام مسجد کا خادم ہوتا ، اس مسجدکی صفائی کرتا ، جھاڑو لگاتا ، جب نماز کا وقت ہوجاتا تو اذان دے کر لوگوں کو بلاتا اور انہیں نماز پڑھاتا ، پھر اس کے بعد نمازیوں کو وہیں مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تعلیم دیتا‘‘،حضرت بنوریؒ نے تو یہ آرزو اور تمنا کی تھی ،لیکن اس آرزو کی تکمیل مولانامحمد امین اورکزئی شہیدؒ کے حصے میں تھی ، چنانچہ وہ بغرض خدمت دین اپنے آبائی علاقےآ گئے ، وہاں ایک مسجد ومدرسہ کی بنیاد رکھ کر تادم شہادت دین متین کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔

ہماراجب جامعہ بنوری ٹاؤن میں باضابطہ داخلہ ہوا تو امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ اللہ کا دور اہتمام تھا ،حضرت مولانا امین اورکزئی صاحب ؒ تو جامعہ سے رخصت لے کرجاچکے تھے ، اساتذہ کرام بسا اوقات سبق کے دوران ان کا بہت زیادہ والہانہ انداز سے ذکر کیا کرتے ، اس لیے ان سے ملاقات اوران کی زیارت کا شوق دل میں بہت زیادہ پیدا ہوگیا تھا ،ہماری طلب علمی کے دوران کسی موقع کی مناسبت سے ان کا کراچی آنا ہوا، جب ان کو پہلی بار دیکھا تو یہی محسوس ہوا کہ جیسے بہت پہلے سے انہیں دیکھا اور جانا ہوا ہے ، بالکل بھی اجنبیت یا دوری محسوس نہ ہوئی ،درحقیقت دینی علوم کی سند کے سلسلے میں جو جڑتا ہے تو پھر وہ تمام کڑیوں سے مربوط ہوکر منظم ہوجاتا ہے اور مزید نکھر بھی جاتا ہے ،کیونکہ یہ ایک روحانی سلسلہ ہوتا ہے ،جس کا تعلق براہ راست روح سے ہوتا ہے اور روح کے تعلق میں بظاہر کتنی بھی دوری اور مسافت کیوں نہ ہو، لیکن دل ہمیشہ جڑے رہتے ہیں ،ان میں دوری پیدا نہیں ہوتی ،چنانچہ ہم اگرچہ ان سے باضابطہ طور پر زیادہ مستفید نہ ہوسکے ،لیکن روحانی طور پر ان کا فیض ہمیشہ محسوس کیا جو تا قیامت جاری رہے گا ان شاء اللہ ۔

غالبا ۲۰۰۷ء میں اسلام آباد میں مقیم دو ہم درس ساتھی مولانا نصیر احمد صاحب اور مولانا عمر شوکت صاحب کی رفاقت میں وسرپرستی میں حضرت مولانا امین اورکزئی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے بطور خاص پہلی بار ھنگو(کوہاٹ) جانے کی ترتیب بنی ، صبح کے وقت ہم اسلام آباد سے نکلے ، عصر کے قریب ھنگو پہنچ گئے ، مولانا امین اورکزئی صاحب ؒ بھی حضرت بنوریؒ کے عاشقین میں سے تھے ، اس مناسبت سے اپنے قائم کردہ ادارے کا نام ’’جامعہ یوسفیہ‘‘ رکھا تھا ، جامعہ یوسفیہ کی مسجد میں ہم نے نماز عصر ادا کی ، نماز کے بعد حضرتؒ سے ملاقات ہوئی ، بہت زیادہ خوشی کا اظہار فرمایا ، ان کی صرف گفتگو ہی نہیں بلکہ ہر ہر ادا عاجزی وتواضع کا حسین مظہر تھی ، مسجد اور مدرسہ کے درمیان برآمدہ نما صحن میں ہم بیٹھ گئے ، گاؤں کی سادہ مگر پر وقار مسجد ، مہمانوں کے لیے ترتیب سے رکھی گئی چارپائیاں ، سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تھا ، دن چھوٹے تھے تو ملاقات اور حال احوال کے دوران ہی مغرب کا وقت ہوگیا ، مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر پھر وہیں آگئے ، جامعہ کے متعلق پوچھتے رہے ، والد صاحب اور جامعہ کے اساتذہ کرام کی خیریت دریافت کی ، جامعہ کے جن مشائخ سے خاص تعلق تعلق تھا ، ان کے صاحبزادوں کا فردا فردا نام لے کر ان کی مصروفیات دریافت کیں ، یہ راقم کی ان کے ساتھ اس فرصت کے سے انداز میں شاید پہلی اور آخری ملاقات تھی ، ورنہ اس سے قبل یا اس کے بعد زیارت کا شرف ہمیشہ کراچی میں حاصل ہوا ، مولانا ؒ مہمان ہوا کرتے تھے ، شاگردوں کا ہر وقت ہجوم رہتا تھا ،اور شاگرد بھی کوئی معمولی نہیں ، اللہ نے مولانا امین صاحب ؒ جیسے اساتذہ کرام کی صحبت اور گلشن بنوری کی برکت سے ان شاگردوں سے بھی دین کا بہت کام لیا کہ جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے ، ایسے میں ملاقات کا شرف توحاصل ہوجاتا ، لیکن ان سے بات چیت اور استفادے کی نوبت بہت کم ملتی ، راقم اسی سعادت کے حصول کے لیے ھنگو حاضر ہوا تھا ، شوق کی کیفیت میں دوران گفتگو بندہ اپنی نادانی ، کم علمی اور ناسمجھی کی بنا پر ایک عام سا سوال کچھ ایسی تعبیر اور انداز سے کر بیٹھا جس پر آج بھی سوچتا ہوں تو کچھ شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے ، لیکن حضرت اورکزئی صاحبؒ کے جواب میں ہمارے لیے سبق کے بہت سارے اہم پہلو بھی تھے ،جسے یہاں تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، اثنا ء گفتگو راقم نے ان سے پوچھا کہ :’’حضرت ! آپ کی کیا مصروفیات ہوتی ہیں؟‘‘، حضرت مولانا امین اورکزئی صاحبؒ جیسے محقق ، مدرس ، عالم نے نہایت تواضع اور عاجزی کے سے انداز میں فرمایا کہ :’’مصروفیات کیا ہونی ہیں ، بس ! وقت ضائع کرتا رہتا ہوں ‘‘، ان کا یہ جواب کچھ اس انداز سے تھا کہ بندہ کو اپنے اس سوال اور تعبیر کی غلطی کا فورا احساس ہوگیا ، ایک چھوٹے کا کسی بڑے سے یہ سوال کرنا مناسب نہیں تھا ، پھر وہ بڑا بھی کوئی معمولی نہیں ، ایسی شخصیت جن کا ہر لمحہ قال اللہ وقال الرسول سے عبارت ہو، جن کا اوڑھنا بچھونا مطالعہ ہو، جن کی زندگی کا اکثر حصہ دین کی خدمت کے لیے وقت ہو ، اس سب کے باوجود نہایت عاجزی سے یہ جواب دینا ، اپنی خدمات اور مصروفیات کو کچھ بھی نہ سمجھنا اور ساتھ ہی وقت کی قدر وقیمت کی اہمیت کا احساس بھی دلادینا ، ان کے اس جواب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ، بڑوں کی صحبت کا یہی سب سے بڑ افائدہ ہے ، جس کے آگے دنیا واسباب دنیا سب کچھ ہیچ لگتے ہیں، کتابوں سے معلومات تو مل جاتی ہے ، لیکن عملی اور حقیقی زندگی کے آداب طور طریق کسی بڑے کی صحبت سے ہی سیکھنے کو ملتے ہیں۔

مولانا امین صاحبؒ جب جامعہ میں تھے تو بطور ناظم طلباء کی نگرانی اور سرپرستی کیا کرتے تھے ، ان کی انتظامی گرفت اور بلا رعایت باز پرس اپنے زمانے میں بہت مشہور تھی ،ہم نے اپنے ان اساتذہ کرام سے سنا جومولانا امین صاحبؒ کے شاگرد بھی رہ چکے تھے کہ مولانا مدرسے کے ایک دروازے سے داخل ہوتے تو دوسرے دروازے تک موجود تمام طلبا فورا متنبہ ہوجاتے ،یا اگران کے کمرے کا دروازہ کھلتا تو مسجد کی پہلی صف میں بیٹھے طلبہ بھی یکدم طاری ہوجانے والے سناٹے سے سمجھ جاتے کہ حضرت استاذ صاحب اپنے کمرے سے چل پڑےہیں،لیکن ان کی گرفت یا نگرانی صرف سختی برائے سختی نہیں تھی ،بلکہ وہ طلبہ اور شاگردوں کے لیے ایک شفیق مہربان باپ کی سی حیثیت رکھتے تھے اور والد ہی کی نگاہ سے تمام طلبہ کو دیکھا کرتے ،چنانچہ ان کی تمام تر سختیوں کے باوجود ان کے شاگردوں کے دل ان کی محبت اور شفقت سے معمور تھے ،تمام طلبہ کے سبق تکرار اور مطالعہ کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر احوال سے بھی مطلع رہنا اور اس کے بارے میں قیمتی مشورے ہدایات اور رہنمائی کرنا یہ ان کی زندگی کے فرائض میں شامل تھا،چنانچہ ان کے بہت سے سعادت مند شاگرد ایسے بھی ہیں جو عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد بھی سال میں دو یا تین بار ان کے پاس ضرور جایا کرتے ، سالانہ چھٹیوں کا ایک معتد بہ حصہ اپنے استاذ کی صحبت میں گزارنا اپنی زندگی کے فرائض میں سمجھا کرتے تھے ، یقینا ایسے ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے بڑوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔

ایک بار حضرت ؒ کراچی تشریف لائے ، استاذ محترم حضرت مولانا قاری قاسم صاحب زید مجدہ کے ہاں کبریا مسجد دھوراجی میں ٹھہرے ہوئے تھے ، مولانا امین صاحبؒ کو درود شریف کے وظائف کی معروف کتاب ’’دلائل الخیرات‘‘ کی اجازت حضرت بنوریؒ سے حاصل تھی ، حضرت بنوری ؒ کے علمی فیض کے ساتھ ساتھ یہ روحانی فیض بھی مولانا امین صاحب ؒ آگے پھیلایا کرتے تھے ، چنانچہ بندہ ’’دلائل الخیرات‘‘ کی اجازت کے حصول کے لیے حضرتؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ، نہایت شفقت فرمائی ، ایک نسخہ مع اجازت تحریر کرکے عنایت کیا اور فرمایا کہ :’’اسے یومیہ پڑھنے کی پابندی بھی کرو اور اس کی اجازت آگے اوروں کو بھی دے دیا کرو، حضرت بنوریؒ معمولی آدمی نہیں تھے ، ان کی اجازت ان کے نسب کی طرح عالی ہے ‘‘۔

مولانا امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ جامعہ میں استاذ اور ناظم ہونے کے ساتھ حضرت بنوری رحمہ اللہ کی صحبت کی بدولت دار التصنیف کے رکن بھی رہے اور حضرت بنوری رحمہ اللہ کی سرپرستی اور توجہات کے زیر سایہ انہوں نےعلمی و تحقیقی کام کا آغاز بھی کردیا اور دار التصنیف کے رفیق بن گئے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ تصنیفی و تحقیقی امور کے لیے جامعہ کی وسطی عمارت میں واقع پہلی منزل پر دار التصنیف میں بیٹھا کرتے تھے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ کے ایک طرف حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ کی اور دوسری طرف مولانا محمد امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ کی نشست تھی اور حضرت بنوری ؒ کی نشست ان دونوں کے درمیان ، چنانچہ حضرت بنوری رحمہ اللہ غایت شفقت و محبت کی بنا پر فرمایا کرتے تھے کہ:’’ دارالتصنیف میں یہ دونوں میرے لیے پرندے کے دوپروں کی مانند ہیں، جن کے سہارے میں اڑتا ہوں‘‘۔

حضرت بنوری رحمہ اللہ امام طحاوی ؒ اور ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کے بہت مداح اوراس کتاب پر علمی وتحقیقی کام کے خواہش مند تھے ،چنانچہ شرح معانی الآثار کی شرح وتخریج کا کام حضرت مولانا امین اورکزئی صاحبؒ کے سپرد کیا ،اس علمی وتحقیقی کام کی مکمل تفصیل حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے مضمون ’’حضرت بنوری اور طحاوی شریف‘‘(بینات اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ) میں  ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، مولانا امین اورکزئی صاحبؒ نے طحاوی شریف پر تحقیقی کام کے لیے ابتداءاکتب رجال وحدیث کی سینکڑوں کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا، ان کتابوں میں خطیب بغدادی ؒ کی تاریخ بغداد ، امام بخاریؒ کی تاریخ کبیر، ابو نعیم اصفہانیؒ کی حلیۃ الاولیاءاور ابن سعد ؒ کی طبقات سرفہرست ہیں ، یہ صرف چند کتب کے نام بطور مثال تحریر کیے ہیں، ان میں ہر کتاب کم از کم دس جلدوں پر مشتمل ہے ، کتب حدیث پر تحقیق ، تخریج اور شرح کا کام آج کے زمانے میں تو کافی آسان ہوگیاہے ، لیکن اب سے کوئی چالیس پینتالیس برس قبل جب یہ کام شروع کیا گیا تھا ،اس وقت بہت سی اہم کتب حدیث نایاب تھیں ، وسائل اور سہولیات کی قلت تھی ،قلمی مخطوطات کو علمی دنیا میں تلاش کرنا اور پھر ان کوحاصل کرنا ،اور وہ بھی ھنگو جیسے دور افتادہ مقام میں رہتے ہوئے بہت کٹھن اور مشکل کام تھا، ایسے میں ایک ایک حدیث کی پندرہ،سترہ یا بیس کتب سے تخریج کرنا اتنا آسان نہ تھا، بلکہ ایسے کام کا سوچتے ہوئے بھی دانتوں تلے پسینہ آجاتا تھا،لیکن مولانا امین صاحب ؒ نے اپنے شیخ اور استاذ کے مفوضہ کام کو بخوبی پورا کیا اور ’’نثرالازہار ‘‘ کے نام سے اس کی متعدد جلدیںشائع بھی ہوگئیں،اب اس کا نیا اور مکمل ایڈیشن ان شاء اللہ بہت جلد جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی طرف سے شائع ہوکر منظر عام پر آئے گا۔

مولانا امین صاحبؒ کی ساری زندگی درس و تدریس اور مطالعہ کتب سے عبارت تھی ،درس وتدریس کے بعد نادر و نایاب کتب کا حصول ان کا خاص شوق تھا ،قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ علم رجال و تاریخ پر بہت گہری نظر رکھتے تھے اور عام رجحانات کے برعکس بہت سے تاریخی معاملات پر ان کی اپنی رائے ہوا کرتی تھی ،جسے وہ تاریخی دلائل سے ثابت بھی کیا کرتے تھے ، گوشہ نشین وخلوت گزین حضرت اورکزئی شہیدؒ کوعالم اسلام میں طبع شدہ نئی کتاب ، یا کسی بھی قدیم کتاب کا پتہ چلتا تو اسے فورا منگوانے کی کوشش کرتے ،کتاب دستیاب ہوجاتی تو اس کا اول تا آخر مکمل مطالعہ کرتے ،مطالعہ کے دوران حاصل ہونے والے نکات یا اپنی تعلیقات بھی اہتمام کے ساتھ تحریر فرماتے، اس طرح ان کا ذاتی کتب خانہ بہت وسیع ہوگیا تھا ،جس میں تقریبا ہر موضوع سے متعلق نایاب اور اہم کتابیں پائی جاتی تھیں،اگر یہ کہا جائے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں مولانا کا جمع کردہ ذخیرہ کتب اپنی نوعیت کے اعتبار سے یقینا ایک منفرد کتب خانہ کی حیثیت رکھتا ہےتو مبالغہ نہ ہوگا۔

جو شخص مطالعہ اور تحقیق کے ذوق سے آشنا ہوجائے پھر اس کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی ہم نشین نہیں ہوتا ، لیکن مولانا اورکزئی صاحبؒ اپنی تمام تر علمی گوشنہ نشینی کے باوصف اپنے علاقہ کے لوگوں کے مسائل حل کرتے ، ان کی خوشی اور غم میں پیش پیش رہتے ، سب سے بڑھ کر ھنگو اور اس کے گردونواح کے انتہائی حساس علاقوں میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے باہمی اتحاد واتفاق کی کوشش کرنابھی ان کی زندگی کا ایک اہم فریضہ تھا ، جسے وہ بحسن وخوبی نبھایا کرتے تھے ، اس وجہ سے انہیں نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اوران کے فیصلے خوش دلی کے ساتھ قبول کیے جاتے تھے ۔

تعلیم وتربیت ، تحقیق وتدریس ، مطالعہ کتب ، گوشہ نشینی وخلوت گزینی ، سماجی ومعاشرتی خدمات اور تبلیغ دعوت ودین جیسی صفات سے آراستہ وپیراستہ یہ عظیم شخصیت اب ہمارے درمیان تو نہیں ، لیکن ان کی مثالی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ، دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے ، آمین ، مولانا امین اورکزئی شہیدؒ رب کے دربار میں سرخرو ہوکرحاضر ہوگئے ،لیکن بزبان اقبال ؒ یوں کہہ گئے :

مرے خاک وخوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلہ شہید کیا ہے ؟ تب و تاب جاودانہ
تیری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ

وضاحت : یہ مضمون سہ ماہی ’’المظاہر‘‘ کی اشاعت خاص بیاد مولانا محمد امین اورکزئی شہیدؒ کے لیے لکھا گیا اور اسی میں شائع ہوا۔

2,980 Views

باطنیت کی اسلام و عرب دُشمنی اور مُسلم کُشی

تحریر: مولانا شمس تبریز خان

باطنیت کی اسلام وعرب دشمنی اور مسلم کشی

دنیا کے نام خدا کا آخری پیغام یعنی اسلام عرب کے ذریعہ پھیلا اور عرب اس عالمگیر انسانی و روحانی مشن کے اولین علمبردار تھے، انہوں نے اپنی تہذیب کے سادہ ورق اور اپنے ذہن و دل کی لوح سادہ پر اسلام کا نقش اس طرح قبول کیا کہ وہ پتھر کی لکیر اور ان کا ضمیر و خمیر بن گیا، اس کے علاوہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے تمام ذخائر سے عربی زبان ہی مالا مال ہے اور وہ اسلام کی سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے، عربی زبان، اہل عرب اور اکابر اسلام (جن کی بیشتر تعداد عربوں ہی پر مشتمل تھی) کے فضائل متعدد احادیث صحیحہ کے علاوہ خود قرآن مجید میں بھی آئے ہیں، جن کا انکار ممکن نہیں، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’عربوں سے محبت رکھو، کیوں کہ میں عربی ہوں، قرآن عربی میں ہے اور اہل جنت کی زبان عربی ہوگی،‘‘یہ حدیث متعدد طریقوں سے آئی ہے اور اس کے بہت سے شواہد ہیں، اس لیے کم از کم معنی کے لحاظ سے تو صحیح ہے،اس کے علاوہ اشاعت اسلام کے سلسلے میں عربوں کے جو ناقابل فراموش کارنامے رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں پر ان کے جو احسانات رہے ہیں، حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ رسول اعظم ﷺ اور ان کے صحابہ و تابعین کے عالم عربی سے نسبت ایسی چیز ہے جو ہر مسلمان کو عزیز ہونی چاہیے اور ان سب باتوں کا لازمی تقاضا ہے کہ عربوں کے ساتھ اکرام و احترام اور ان کی خیرخواہی کا معاملہ کیا جائے،چنانچہ اسلام کی پوری تاریخ میں اہل سنت نے عربوں کے ساتھ ایسا ہی کریمانہ معاملہ کیا اور انہیں اپنا محسن اور اسلام کے اولین علمبرداروں کا مقام دیا، عجمی سلاطین خصوصاً عثمانی خلفاء اپنے کو ہمیشہ ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کہلانے میں فخر و اعزاز محسوس کرتے تھے۔

عرب مسلمانوں کا ایران فتح کرنا، مجوسی و عجمی تعجب رکھنے والوں کو ہمیشہ ناپسند رہا، جس کے نتیجے میں مسلم خراسانی، بابک خرمی اور حسن بن صباح جیسے عرب دشمن اور شعوبی پیدا ہوتے رہے، یہ شعوبیت کا اثر تھاکہ محمود غزنوی جیسے باحمیت مسلم حکمران کے زیر سایہ بھی فردوسی جیسا درباری شاعر عربوںکی ہجو ومذمت کرتا ہے اور علی الاعلان عجمی تعصب کو ہوا دیتا ہے،عربوں کے خلاف عجمی تعصب کا سب سے بڑا مرکز شروع سے آج تک ایران ہی رہا ہے، جس سے خلافت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سیاسی قوت اور وحد کو خطرہ لاحق رہا،علامہ شکیب ارسلان نے ایک فرنچ مفکر ’’کونٹ دی غوبینو‘‘ کی یہ رائے نقل کی ہے:

’’اہل عجم کا کل مقصد متحدہ عرب حکومت کو پارہ پارک کرنا تھا، کیوں کہ اس عظیم سلطنت کی ماتحتی میں اس کا دم گھٹتا تھا جو اسپین سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی، وہ فارس کی داخلی خودمختاری کے لیے کوشاں رہتے تھے، ا س کے لیے سب سے پہلے انہوں نے اہل سنت کی خلافت کی شرعی حیثیت کا انکار کیا اور اہل بیت کے مغصوبہ حقوق کی بحالی کی آواز اس شرعی موقف کو اپناتے ہوئے اٹھائی جو ان کے نزدیک اسلام میں عربی موقف سے زیادہ اہم اور مقدم تھا، اس طرح وہ گویا عربوں سے بڑھ کر عرب اور اپنے خیال میں مسلمانوں سے بڑھ کر مسلمان بننے لگے، اور عربوں کے مقابلے میں ایسے موقف لے کر اٹھ کھڑے ہوئے جن کا وہ قطعی انکار بھی نہیں کرسکتے تھے، اس طرح ایران میں مذہب شیعہ کا نشوونما ہوا جس کے جلو میں بے شمار معرکے تھے، لیکن اس نے ایران کی بڑی قومی خدمت کی، اور اس کی پارینہ روایات کی تجدید کی، بہ ظاہر تو خلافت میں عباسیوں کے حق کے بارے نزاع تھی مگر یہ تحریک خالص ایرانی تحریک تھی‘‘۔(۱)

ایک جدید عرب مفکر و مؤرخ استاذ انورالجندی اپنی تاریخ اسلام میں ابومسلم خراسانی، برامکہ اور امین و مامون کی جنگ میں دعوبیت کے اثرات دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فلسفیانہ اور باطنی تحریکیں جو اہل بیت کی حمایت کا نقاب ڈالے ہوئے تھیں بڑے پیمانے پر فکری، معاشرتی اور سیاسی تصادم کا خاکہ بنارہی تھیں، جو بعد کی بڑی سیاسی تحریکوں کے ذریعے سامنے آیا، جیسے حبشیوں کی بغاوت، قرامطہ کی شورش، باطنیہ کی تحریک، یہ ایسی تحریکیں تھیں جنہوں نے معاشرتی انصاف اور اہل بیت کی حمایت کی نقاب اوڑھ رکھی تھی، مگر ان کی کوشش عظیم خلافت عباسیہ کے خاتمے کے لیے تھی، چناں چہ یہ ساری کشمکش مسلمانوں کے عمومی زوال کا پیش خیمہ بن گئی۔ (۲)

باطنیہ کی تحریک پر تبصرہ کرتئے ہوئے استاذ انوارالجندی لکھتے ہیں:ـ

’’اس دعوت کے اندر قدیم ایرانی اثرات، ثنویت و مجوسیت کے مباحث بالکل ظاہر ہیں، جس سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اس کا مقصد قطعاً اسلام کے خلاف تھا اور وہ اسلام اور اس کی دعوت کے خلاف سازشوں کی ایک کڑی تھی۔(۳)

حکیم ناصر خسرو

سفر نامہ ناصر خسرو کے مترجم مولوی عبدالرزاق کانپوری لکھتے ہیں:

’’خلافت عباسیہ، ترکی غلاموں کے اثر سے کمزور ہوکر ہنوز موجود تھی، لیکن خلفائے فاطمین اسی بھی صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے، جس کے لیے ایک دارالحکومت (فری میس لاج) قائم تھا، اور جس کے نامور معلم ناصر خسرو جیسے علامہ تھے۔ (۴)

یہ حکیم ناصرخسرو اہل سنت اور عباسی خلافت سے کتنا بغض رکھتا تھا، اس کا اندازہ اس کے سفر نامے اور دوسری کتابوں سے ہوسکتا ہے، ہم یہاں اس کے دو شعر نقل کرتے ہیں، جن میں اس نے فاطمی خلیفہ کو عباسی خلیفہ پر فوج کشی کی دعوت دی ہے،وہ لکھتا ہے:

وقت آں آمد کہ روز کیں چو خاک کربلا آب را در دجلہ از خون عدد، احمر کنی
اے نبیرۂ آن کہ زوشد در جہاں خیبر سمر دیر برناید کہ تو بغداد را خیبر کنی (۵)

شیعہ سنی اختلافات کے اصولی اختلاف کو ناواقف لوگ جزئی اور فروعی اختلاف سمجھتے ہیں، لیکن اہل علم اس کی اصولی نوعیت سمجھتے ہیں اور ان اختلافات کو بنیادی اور کفر واسلام پر مبنی قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ مغربی فضلاء بھی اس اختلاف کی گہرائی دیکھ لیتے ہیں، چناں چہ پروفیسر برائون لکھتے ہیں:

’’شیعہ اور سنی کا جھگڑا صرف ناموں یا شخصیتوں کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ دو متضاد اصولوں یعنی جمہوریت اور بادشاہوں کے حق الٰہی کا جھگڑا ہے، عرب زیادہ تر جمہوریت پسند ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں، لیکن ایرانی ہمیشہ اپنے بادشاہوں کو الٰہی یا نیم الٰہی ہستیاں سمجھتے رہے ہیں، جو طبائع اس بات تک کو گوارا نہیں کرسکتے کہ انسانوں کا منتخب کردہ کوئی شخص ان کی ریاست کا حکم ہو،وہ امام یعنی خلیفۃ الرسول ﷺ کے انتخاب عمومی کو کیونکر تسلیم کرسکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ایران ہمیشہ سے اسماعیلیہ اور امامیہ فروں کا مرکز بنا رہا ہے۔ (۶)

اپنے نظریئے کی تائید میں برائون نے رضائے کرد کے یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں:

بشکست عمرؓ پشت ہزبران عجم را برباد فناد اورگ و ریشہ جم را
ایں عربدہ بر غصب خلافت زعلی نیست با آل عمرؓ کینہ قدیم است عجم را (۷)

شیخ محب الدین خطیب نے اپنی کتاب میں الصاحب بن عباد کے دربار میں ایک ایران نواز شعوبی شاعر کے شعر پڑھنے اور الصاحب کے حکم سے اس کے نکالے جانے کا واقعہ لکھتے ہوئے الصاحب کا مشہور قول نقل کیا ہے کہ:

لا تجد رجلا یطعن فی العرب الا وفیہ عرق من المجوسیہ (۸)

تم جب عربوں پر کسی کو طعنہ زنی کرتے ہوئے پائو تو سمجھ لو کہ اس میں کوئی عجمی رگ کارفرما ہے۔

باطنیت:اسلام دشمنی و مسلم کشی کی مسلسل تاریخ

خود کو مسلمان کہنے والے شیعہ فرقوں میں باطنیہ و قرامطہ سے جتنا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچا ہے وہ ایک المناک اور افسوسناک تاریخی حقیقت ہے، سیاسی کشمکش کو انہوں نے دینی رنگ دینے اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے سے کبھی دریغ نہیں کیا اورہمیشہ اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر سازش اور شورش پیدا کرے رہے اور اپنی پوری تاریخ میں عالم اسلامی کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بنے رہے اور موقع بموقع قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے رہے، اسی لیے علامہ شمس الدین ذہبیؒ نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ ؒ کا یہ بیان نقل کیا ہے:

واللہ اعلم وکفی باللہ علیما لیس فی جمیع الطرائف المنتسبۃ الی الاسلام مع بدعۃ وضلالۃ شر منھم لااجھل ولا اکذب ولا اظلم ولا اقرب الی الکفر والفسوقہ والعصیان وابعد عن حقائق الایمان منہم (۹)

ترجمہ :اللہ جانتا ہے اور اس کا علم بہت کافی ہے کہ اسلام کی طرف منسوب فرقوں میں بدعت و ضلالت کے باوجود کوئی ان سے زیادہ برا نہیں اور نہ کوئی ان سے زیادہ جاہل، جھوٹا، ظالم اور کفر و فسق اور عصیان سے قریب اور حقائق ایمان سے دور ہے۔

وہ ان فرقوں کی اسلام دشمنی کے سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’معلوم ہوا ہے کہ ساحل شام پر الجرد و کسروان نام کے بڑے پہاڑ تھے، جس میں ہزاروں روافض (دروز) رہتے ہیں اور لوگوں کا خون بہاتے اور انہیں لوٹتے ہیں اور جب ۶۹۹ھ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ان کے سازوسامان پر قبضہ کرلیا اور انہیں کافروں اور قبرص کے نصاریٰ کے ہاتھ بیچ دیا، وہ گزرنے والے مسلمان سپاہیوں کو بھی پکڑ لیتے تھے اور اس طرح وہ مسلمانوں کے لیے ان کے تمام دشمنوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے، ان کے بعض امراء نے نصاریٰ کا علَم بلند کیا، یہ پوچھے جانے پر کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں کون بہتر ہے؟ کہا کہ نصاریٰ بہتر ہیں، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ قیامت میں کس کے ساتھ حشر پسند کروگے؟ تو کہا کہ نصاریٰ کے ساتھ، ان لوگوں نے مسلمانوں کے کئی شہروں کو نصاریٗ کے حوالے بھی کیا۔‘‘ (۱۰)

آخر میں علامہ ذہبی پھر بڑے درد کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ:

ففعلوا فی اھل الایمان مالم یغطہ عبدۃ الاوثان والصلبان (۱۱)

ان باطنیوں نے اہل ایمان کے ساتھ ایسا برا سلوک کیا جو بت پرستوں اور صلیبیوں نے بھی نہیں کیا۔

علامہ مصر شیخ ابوزہرہ، روافض باطنیہ کی اسلام دشمنی اور غیر اسلامی طاقتوں سے سازباز کی دیرینہ روایت کے متعلق لکھتے ہیں:

’’بلاد شام اور اس کے بعد عالم اسلام پر صلیبی حملے کے وقت انہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں صلیبیوں سے دوستی کی، چناں چہ جب صلیبی بعض بلاد اسلامیہ پر قابض ہوئے تو انہیں اپنا مقرب بنایا اور مختلف عہدوں پر بحال کیا اور جب نورالدین زنگی، صلاح الدین ایوبی اور دیگر حکمران ہوئے، یہ چھپ بیٹھے اور مسلمانوں کے اکابر اور بڑے سپہ سالاروں کے قتل کی سازشیں کرنے لگے اور جب تاتاریوں نے شام پر حملہ کیا تو صلیبیوں کی طرح نصیریوں نے ان سے بھی دوستی کی اور ان کے آلہ کار بن گئے،پھر تاتاری حملے رکنے کے بعد اپنے پہاڑوں میں اسی طرح سمٹ گئے جیسے دریائے کیڑے اپنے خول میں سمٹ جاتے ہیں اور دوسرے موقع کے انتظار میں بیٹھ گئے۔‘‘ (۱۲)

شام کے ممتاز عالم شیخ عبدالرحمن حسن حبنکہ المیدانی نے باطنیوں اور قرمطیوں کی مسلم کشی کا ایک سنہ وار جائزہ درج کیا ہے، جس کا خلاصی یہاں دیا جاتا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’۲۹۰ھ میں یحییٰ قرمطی نے محاصرہ دمشق میں بہتوں کو قتل کیا، اس کے بھائی حسین نے بلاد شام میں قتل عام کیا، جانوروں اور بچوں تک کو نہ بخشا، ۲۹۴ھ میں زکرویہ بن مہرویہ نے حاجیوں کے خراسانی قافلے کو قتل کیا اور راستے کے تمام کنوئوں کو بند کردیا، اس سال تقریبا بیس ہزار حاجی شہید ہوئے، حجاج کا قتل قرامطہ کی مخصوص عادت تھی اور اس میں عراقی، ایرانی اور بحرینی آگے تھے، ۳۱۲ھ میں ابوطاہر قرمطی نے کوفہ میں قتل عام کیا، ۴۹۴ھ میں قرامطہ نے پھر زور پکڑا، ان کے سرغنہ احمد بن عطاش کا مرکز قلعہ اصفہان تھا اور حسن بن صباح کا الموت جس کے فدائیوں نے نظام الملک کو قتل کیا، ۴۹۸ھ میں خراسان و ہندوستان کے قافلہ حجاج کو رے کے پا س باطنیوں نے قتل کیا، بالآخر ۵۱۸ھ میں حسن بن صباح مر گیا، ۵۲۰ ھ میں وہ پھر سرگرم ہوئے، بہرام نے شام کو مرکز بنایا اور صلیبی حملوں سے فائدہ اٹھایا، قلعہ بانیاس (شام) پر قابض ہوکر مسلمانوں کو ستانے لگا، مزوقانی باطنی نے صور کے صلیبیوں سے دمشق کی پیش کش کی اور کہا کہ جمعہ کے دن جامع اموی کے دروازے بند کرکے انہیں قبضہ دلادے گا، مگر یہ راج تاج الملوک امیر دمشق کو معلوم ہوگیا، اس نے اُسے بلاکر قتل کردیا اور اس کا سر قلعے کے دروازے پر لٹکادیا، اور رمضان ۵۲۳ھ میں مسلمانوں نے باطنیوں کا صفایا کیا، ۵۲۴ھ میں اسماعیل باطنی نے قلعہ بانیاس صلیبیوں کے حوالے کردیا، ۵۴۹ھ میں خراسان میں باطنی، مسلمانوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہوئے، ۵۵۲ھ میں باطنیہ نے پھر خراسانی حجاج کا قتل عام کیا، مؤرخین کہتے ہیں کہ بلاداسلامیہ کا کوئی شہر ایسا نہ تھا جہاں شرفاء و حجاج کے اس قتل عام پر ماتم نہ ہوا ہو، (قال المؤرخون ولم یبق بلاد من بلاد المسلمین الا وفیہ ماتم علی من قتل من الفضلاء فی ھذہ الغدرۃ الخائنۃ)

۵۷۱ھ میں صلاح الدین ایوبی قلعہ اعزاز (نزد حلب) کے محاصرے کے دوران طائفہ اسدیہ کے امیر جائولی کے خیمے میں گیا، جہاں ایک باطنی نے اس کے سر پر حملہ کیا، مگر وہ مغفر کے سبب محفوظ رہا، صلاح الدین نے اسے پکڑ بھی لیا، اتنے میں امیر بازکش خیمے میں داخل ہوا، جسے باطنی نے زخمی کیا، پھر امیر نے اسے قتل کیا، پھر بہت سے باطنی آئے اور قتل ہوئے اور صلاح الدین صحیح سلامت نکل گیا اور فوج سے باطنیوں کو نکال دیا۔ (۱۳)

مصر کے غیرت مند سنی عالم و اہل قلم شیخ محب الدین خطیب نے دوجلدوں میں رد شیعہ میں اپنی مشہور کتاب ’’مجموع السنۃ‘‘ لکھی جس میں وہ بجا طور پر لکھتے ہیں:

’’ہمارے درمیان تاریخ فیصلہ کرسکتی ہے، کیا آپ نے کسی خارجی، شیعی یا معتزلی سپہ سالار کو اسلامی مقاصد کے لیے کسی فوج کی قیادت کرتے دیکھا ہے، یا وہ لوگ ہزیمت کے داعی اور تفرقہ و انتشار کے حامی رہے ہیں، وہ لوگ تو ہر مجاہد حکومت جیسے امویین اور آل عثمان کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔‘‘ (۱۴)

عبدالقاہر بغدادی لکھتے ہیں:

’’ایک باطنی بدباطن سلیمان بن الحسین الاحسا سے اسلامی حکومت کے خاتمے کا دعویٰ لے کر اٹھا اور حاجیوں پر حملہ آور ہوکر بہتوں کو شہید کردیا، پھر مکہ معظمہ میں داخل ہوکر بیت اللہ کا طواف کرنے والے بے گناہوں کے خوان سے اپنے ناپاک ہاتھ رنگے، کعبہ کے مقدس پردے چاک کیے اور شہیدان حرم کو بیئر زمزم میں ڈال دیا اور مسلم افواج کو قتل کیا اور بالآخر ان سے شکست کھا کر مقام ہجر کی طرف فرار ہوگیا، جہاں ایک بہادر مسلمان خاتون کی پھینکی ہوئی اینٹ سے اس کا سرپُرغرور کچلا گیا۔

اس کے بعد اسلامی حکومت کا دائرہ اقتدار برابر بڑھتا گیا اور اللہ نے مسلمانوں کے ہاتھ سے تبت و چین کے اکثر علاقے اور یمین الدولہ امین الملت سلطان محمود غزنوی ؒ کے عہد میں ہندوستان بھی اسلامی سلطنت میں داخل ہوگیا،
پھر قیروان (تیونس) میں ایک باطنی عبیداللہ بن الحسن ظاہر ہوا اور اپنے دام فریب میں کتامہ، مصامدہ اور کچھ بربر قبائل کو مبتلا کردیا اور ان کی شعبدہ بازیوں کے سبب بھولے بھالے لوگ اس کے پیرو بن گئے اور ان کی مدد سے وہ المغرب کے بعض علاقوں پر قابض ہوگیا،پھر ابوسعید الحسین بن بہرام نامی باطنی الاحساء قطیف اور بحرین پر قابض ہوگیا اور مسلمانوں کی جان و مال سے کھیلنے لگا، عورتوں، بچوں تک کو قید کرلیا،مصاحف اور مساجد کو اغ لگائی، پھر ہجر پر قابض ہوکر وہاں کے لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔

یمن میں صنادیقی باطنی ظاہر ہوا اورمسلمانوں کا قتل عام کیا، جہاں ابن الفضل بھی اس کے ساتھ ہوگیا، مگر اللہ نے ان کا مرض اکلہ اور طاعون سے کام تمام کردیا، پھر شام میں میمون بن دیصان کے پوتے بوالقاسم بن مہرویہ نے اپنی حکومت کی پیش گوئی کے ساتھ خروج کیا، (۲۸۹ھ) خلیفہ المعتضد کے فوجی نسر سبک نے ان کا مقابلہ کیا، مگر وہ اسے قتل کرکے شہر صافہ میں داخل ہوگئے اور وہاں کی جامع مسجد کو ملادیا اور وہاں سے دمشق کا رخ کیا جہاں انہیں الحمامی غلام بن طیون نے رقہ کی طرف بھگادیا، جہاں المکتفی کے سیکریٹری محمد بن سلیمان نے انہیں شکست دی اور ابوالحسن بن زکریا بن مہرویہ رملہ کی طرف بھاگا، وہاں والی ٔ رملہ نے اسے اس کے ساتھیوں سمیت خلیفہ المکتفی کے پاس بھیج دیا اور خلیفہ نے بغداد کے شارع عام پر انہیں بری طرح قتل کیا اور ۳۱۰ھ تک قرامطہ کا فتنہ فرو رہا۔

حرم محترم کی بے حرمتی اور حجر اسود کی چوری

۳۱۱ھ میں سلیمان بن الحسن کا فتنہ کھڑا ہوا۔ اس نے امیر بصرہ سیکا مقلجی کو قتل کرکے بصرہ کا خزانہ بحرین بھیج دیا اور ۳۱۲ھ میں متہیبر میں ۳۰ محرم کو حاجیوں کو شہید کرکے ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کرلیا۔ پھر ۳۱۳ھ میں کوفہ میں غارت گری کی۔ ۳۱۵ھ میں مسلمان کمانڈر ابن ابی الساج کو شکست دی اور اسے قید کرلیا۔ ۳۱۷ھ میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوکر طواف کرنے والے حاجیوں کا قتل عام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں تین ہزر حاجیوں کو شہید کیا اور سات سو کنواریوں کو اغوا کیا۔ بحر اسود کو اکھاڑ کر بحرین، پھرکوفہ بھیج دیا، جہاں سے وہ ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن یحییٰ (نیشاپور کے عامل زکوٰۃ) کے ہاتھوں سے ۳۲۹ھ میں مکہ معظمہ واپس بھیجا گیا۔ سلیمان بن الحسن ۳۱۸ھ میں بغداد گیا، جہاں مقام ہیت میں ایک خاتون نے اپنی چھت سے پتھر پھینک کر اس کا کام تمام کردیا۔

توہین حرم کے اس المناک واقعے کی تفصیلات ابن خلدون(۱۵)، احمد بن امین(۱۶) اور ابن کثیر (۱۷)اور بہت سے مؤرخوں نے لکھی ہیں۔ ہم یہاں ابن الاثیر (م ۶۳۰ھ) کا بیان نقل کرتے ہیں،وہ ۳۱۷ھ کے حوادث کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس سال لوگوں کے ساتھ منصور دیلمی نے حج کیا اور بغداد سے مکہ گیا۔ راستے میں تو امن رہا، مگر مکہ مکرمہ میں ابوطاہر قرمی نے یوم الترویہ میں ان پر حملہ کیا اور اس کے ساتھیوں نے حاجیوں کو لوٹا اور انہیں مسجد حرام بلکہ بیت اللہ کے اندر بھی قتل کیا اور حجر اسود کو اکھاڑ کر ہجر (بحرین) بھیج دیا۔ اس موقع پر جب ابن محلب امیر مکہ اشراف کی ایک جماعت کے ساتھ حاجیوں کی طرف سے سفارشی بن کر گئے، مگر اُس نے ان کی ایک نہ سنی اور اس سے جنگ میں سب مارے گئے۔

ابوطاہر نے بیت اللہ کا دروازہ بھی کھود دیا اور ایک آدمی کو میزاب رحمت اکھیڑنے کے لیے اوپر چڑھایا، جہاں سے وہ گر کر مرا۔ مقتول حاجیوں کو اس نے چاہ زمزم میں ڈلوایا اور باقی کو مسجد حرام میں بغیر غسل و کفن اور بغیر جنازہ کے دفن کرادیا۔ غلاف کعبہ کو اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا اور اہل مکہ کے گھروں کو لوٹ لیا۔

جب اس کی خبر (شیعی حکمران) المہدی ابو محمد عبیداللہ علوی کو افریقہ میں ملی تو اس نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے اسے لکھا کہ ’’تم نے ایسا کرکے ہم شیعوں اور ہماری حکومت کے والیوں کے بارے میں کفر و الحاد کا شبہ ثابت کردیا۔ اور اگر تم اہل مکہ اور حجاج کا مال اور حجر اسود کو اس کی جگہ اور غلاف کعبہ کو واپس نہ کروگے تو میں تم سے دنیا و اخرت میں بری ہوں۔‘‘

جب ابوطاہر کو یہ خط ملا تو اس نے حجر اسود کو واپس کیا اور اہل مکہ کا کچھ مال بھی واپس کیا اور غلاف کعبہ اور حجاج کے مال کے بارے میں یہ عذر کیا کہ اس کی تلافی پر وہ قادر نہیں۔

قرامطہ کا یہ امیر ابوطاہر (لعنہ اللہ) اس موقع پر باب کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا اور حاجی اس کے آس پاس قتل کیے جارہے تھے اور مسجد حرام اور شہر حرام اور یوم الترویہ میں (جو اشرف الایام ہے) معصوم حاجیوں پر تلواریں چل رہی تھیں اور وہ یہ بیت پڑھا تھا کہ:

انا للہ و باللہ انا یخلق الخلق وافنیھم ان

ترجمہ: میں اللہ کا ہوں اور اللہ کے ذریعے ہوں، وہ مخلوق کو پید اکرتا ہے اور میں انہیں فنا کرتا ہوں۔

لوگ ان قاتلوں سے بھاگ کر کعبہ کے پردوں سے چمٹتے تھے، مگر اس کا بھی لحاظ کیے بغیر شہید کیے جاتے رہے۔ اسی طرح حالات طواف میں بھی شہید ہوتے رہے۔ اس دن ایک بزرگ طواف کررہے تھے، ختم طواف پر ان پر بھی تلواریں پڑیں۔ انہوں نے مرتے وقت یہ شعر پڑھا:

تری المحبین صرعٰی فی دیارھم کفتیۃ الکھف لایدرون کم لبثوا

ایک قرمطی مطاف میں داخل ہوا جو سوار تھا اور شراب پیے ہوئے تھا۔ ا س کے گھوڑے نے بیت اللہ کے پاس پیشاب کیا۔ اس نے حجر اسود کو ایک کلہاڑی سے مار کر توڑا اور پھر اکھاڑ لیا۔ اور اس لعین نے مسجد حرام میں ایسا الحادی اقدام کیا جو پہلے اور بعد میں کسی نے نہیں کیا۔ اس شرمناک حرکت پر انہیں ان کی شدت کفر زندقہ نے آمادہ کیا تھا۔

قرمطی مکہ میں گیارہ دن رہا، اور جب اپنے وطن لوٹا تو اللہ نے اس کے بدن پر ایک طویل عرصے تک عذاب ازل کیا، جس سے اس کے اعضاء کٹ کٹ کر گرتے تھے اور اس کے گوشت سے کیڑے ٹپکتے تھے۔ (ص ۲۰۳)

اللہ تعالیٰ پہلے ڈھیل دیتا ہے، پھر بڑے زور سے پکڑتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

ان اللہ یعلی للظالم حتٰی اذ اخذہ لم یفلتہ

’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے اور جب پکڑتا ہے توہ بچ نہیں پاتا۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی۔

ولا تحسبن اللہ غافلا عما بعمل الظالمون۔ انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار

الصلہؔ کا مصنف لکھتا ہے کہ ابوطاہر نے کعبہ کے دروازے اکھیڑ دیئے اور اس کا غلاف اتار لیا اور اس وجودہ خلفاء کے وہ آثار لوٹ لیے جو انہوں نے بطور زینت وہاں رکھے تھے۔ اس نے حضرت ماریہ ؓ کے کانوں کے بندے، حضرت ابراہیم ؑ کے مینڈھے کے سینگ اور عصائے موسیٰ جو سونے جواہرات سے جڑے ہوئے تھے۔(۱۸)

حجر اسود ۳۳۹ھ میں واپس ہوا۔ چنانچہ ابن اثیر اس سال کے حوادث میں لکھتے ہیں:

’’اس سال قرامطہ نے یہ کہہ کر حضر اسود واپس کیا کہ اسے ہم حکماً لے گئے تھے اور حکماً واپس لائے ہیں۔ امیر بحکم نے انہیں حجر اسود کی واپسی کے لیے پچاس ہزار دینار کی پیش کش کی تھی، مگر وہ اس پر راضی نہیں ہوئے اور اس سال ذیقعدہ میں بغیر کسی معاوضہ کے واپس کردیا۔ وہ پہلے حجر اسود کو کوفہ لائے اور اس کی جامع مسجد میں لٹکایا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو اسے مکہ واپس لے گئے۔ قرامطہ نے حجر اسود بیت الحرام سے ۳۱۷ھ کو اکھاڑا۔ اس طرح وہ بائیس سال ان کے پاس رہا۔ (۱۹)

احمد امین حرم میں قتل عام کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

ابوطاہر گھوم پھر کر اپنے ساتھیوں کو قتل پر یہ کہہ کر ابھارتا تھا کہ ان کفار اور بت پرستوں پر خوب حملہ کرو۔ (اجھزوا علی الکفار وعبدۃ الاحجار) اس نے اور اس کے ساتھیوں نے وہاں بارہ دن قیام اور قتل و غارت کا ایسا اقدام کیا جس سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ (۲۰)

ماخوذ از : ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ، اپریل ۱۹۸۵

حواشی

(۱) حاضر العالم الاسلامی ۱؍۱۸۵ بیروت (۳،۱۹)۔
(۲) تاریخ اسلام ۲؍ ۸۷ دارالانصار قاہرہ ۔
(۳) تاریخ اسلام، ص ۹۲ قاہرہ ۔
(۴) سفر نامہ ناصر خسرو، ص ۵۲ ۔
(۵)سفر نامہ ناصر خسر، ص ۸۷ بحوالہ دیوان ناصر خسرو، ص ۲۱۳۔
(۶) تاریخ ادبیات ایران، ص ۲۹، ۳۰ ۔
(۷) ایضاً ۔
(۸) مجموع السنۃ ۱؍۲۲۶۰۷۔
(۹) مختصر منہاج السنہ، ص ۳۳۲ ۔
(۱۰) ایضاً، ص ۳۲۹-۳۳۲ ۔
(۱۱) ایضاً، ص ۵۰۵۔
(۱۲) تاریخ المذہب الاسلامیہ لابی زہرہ، ص ۶۴ قاہرہ ۱۹۷۶ء۔
(۱۳) مکاید یہودیۃ حیرالتاریخ للاستاذ عبدالرحمن حسن حبنکہ المید، ص ۲۰۴، ۲۰۵ دمشق ۱۹۷۸ء ۔
(۱۴) مجموع السنۃ ۱؍ ۳۷۶۔
(۱۵) تاریخ ابن خلدون ۳؍۳۷۹ ۔
(۱۶) ظہر الاسلام ۴؍۱۳۳ ۔
(۱۷)البدایہ والنہایہ ۱۱؍۶۰-۱۴۹۔
(۱۸) الکامل ۶؍۲۰۳ (بیروت ۱۳۹۰ھ ۱۹۶۸ء) ۔
(۱۹) ایضاً ۶؍۳۳۵ ۔
(۲۰) ظہر الاسلام ۴؍۱۳۳ (بیروت ۱۹۷۹ء)۔

1,981 Views

Fatwa on COVID-19 (Coronavirus) Vaccine While Fasting

NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Darul Ifta Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.

Question

 Is it permissible to take the COVID-19 vaccine while fasting during Ramadan?

Answer

Taking the COVID-19 vaccine does not invalidate the Ramadan fast. Injections taken either intravenously or intramuscularly do not break the fast. Since the coronavirus vaccine is given by syringe/injection, it does not render the fast void.

فی الفتاوی الشامیۃ:

“لأنه أثر داخل من المسام الذي هو خلل البدن، و المفطر إنما هو الداخل من المنافذ للإتفاق على أن من اغتسل في ماء فوجد برده في باطنه أنه لايفطر، و إنما كره الإمام”. ( ٢ / ٣٩٥)

و فی الفتاوی الھندیۃ:

“و ما يدخل من مسام البدن من الدهن لايفطر”. ( ١ / ٢٠٣)

For further details about Corona Vaccine:

2,492 Views

شب برات اور پندرہ شعبان کا روزہ ، حقیقت فضیلت اور چند غلط فہمیاں از مفتی محمد تقی عثمانی

شب برأت کی حقیقت اورفضیلت کا ثبوت

شعبان کا مہینہ شروع ہوچکا ہے ،اس ماہ میں ایک مبارک رات آنے والی ہے جس کا نام ’’شب برات‘‘ ہے ،چونکہ اس رات کے بارے میں بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ اس رات کی کوئی فضیلت قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ،اوراس رات میں جاگنا ،اوراس رات میں عبادت کو خصوصی طور پر باعث اجر وثواب سمجھنابے بنیاد ہے ، بلکہ بعض حضرات نے اس رات میں عبادت کو بدعت سے بھی تعبیر کیا ہے ، اس لیے لوگوں کے ذہنوں میں اس رات کے بارے میں مختلف سوالات پیدا ہورہے ہیں ، اس لیے اس کے بارے میں کچھ عرض کردینا مناسب معلوم ہوا۔

اس سلسلے میں مختصرا گزارش یہ ہے کہ میں آپ حضرات سے بار بار یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ جس چیز کا ثبوت قرآن میں ،یا سنت میں ،یا صحابہ کرام کے آثار میں ، تابعین بزرگان دین کے عمل میں نہ ہو ،اس کو دین کا حصہ سمجھنا بدعت ہے ، اور میں ہمیشہ یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ اپنی طرف سے ایک راستہ گھڑ کر اس پر چلنے کا نام دین نہیں ہے ، بلکہ دین اتباع کا نام ہے ، کس کی اتباع ؟ حضور اقدس ﷺ کی اتباع ، آپ کے صحابہ کرام کی اتباع ، تابعین اور بزرگان دین کی اتباع، اب اگر واقعۃ یہ بات درست ہو کہ اس رات کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ، تو بیشک اس رات کو کوئی خصوصی اہمیت دینا بدعت ہوگا ، جیسا کہ شب معراج کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ شب معراج میں کسی خاص عبادت کا ذکر قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔

لیکن واقعہ یہ ہے کہ شب برات (پندرہ شعبان) کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرامؓسے احادیث مروی ہین، جن میں نبی کریمﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں، اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو،لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تواس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں، اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بالکل غلط ہے، چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ اتنے انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے جسم پر بال ہیں۔

امت مسلمہ کی جو خیر القرون ہیں، یعنی صحابہ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کا دور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائد اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، لوگ اس رات کے اندر عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں،لہذاا س کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، ا س رات میں جاگنا، اس میں عبادت کرنا باعث اجرو ثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے۔

شب برأت کی خاص عبادت کیا ہے؟

البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں فلاں طریقہ سے عبادت کی جائے، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے، مثلاً پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی امرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، وغیرہ وغیرہ اس کا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے،بلکہ نفلی عبادات جس قدر ہوسکے، وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفلی نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں، لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔

شب برأت میں قبرستان جانا

اس رات میں ایک اور عمل ہے، جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ کہ حضور نبی کریمﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور اس رات میں جنت البقیع تشریف لے گئے تھے، اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمدشفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریمﷺ سے جس درجے میں ثابت ہو، اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے، لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے، اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا، اور اس کو ضروری سمجھنا، اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا، اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا، اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے، لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ نظر سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریمﷺ تشریف لے گئے تھے، میں بھی آپﷺ کی اتباع میں جارہا ہوں، تو ان شاء اللہ اجرو ثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاؤ، لہٰذا اہتمام اورالتزام نہ کرو، پابندی نہ کرو، یہ درحقیقت دین کی سمجھ کی بات ہے، کہ جو چیز جس درجہ میں ثابت ہو اس کو اسی درجہ میں رکھو، اس سے آگے مت بڑھاؤ، ور اس کے علاوہ دوسری نفل عبادت ادا کرلو۔

شب برات اور شب قدر میں صلوٰۃ التسبیح اور نفل کی جماعت

میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس رات میں اور شب قدر میں نفلوں کی جماعت کرتے ہیں، پہلے صرف شبینہ باجماعت ہوتا تھا، اب سناہے کہ صلوٰۃ التسبیح کی بھی جماعت ہونے لگی ہے، یہ صلوٰۃ التسبیح کی جماعت کسی طرح بھی ثابت نہیں، ناجائز ہے، اس کے بارے میں ایک اصول سن لیجئے جو نبی کریمﷺ نے بیان فرمایا کہ فرض نماز کے علاوہ،ا ور ان نمازوں کے علاوہ جو حضور اقدسﷺ سے باجماعت ادا کرنا ثابت ہیں، مثلاً تراویح، کسوف اور استسقاء کی نماز، ان کے علاوہ ہر نماز کے بارے میں افضل یہ ہے کہ انسان اپنے گھر میں ادا کرے، صرف فرض نماز کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندرصرف افضل نہیں، بلکہ سنت موکدہ قریب بواجب ہے کہ اس کومسجد میں جا کر جماعت سے ادا کرے ، لیکن سنت اور نفل میں اصل قاعدہ یہ ہے کہ اس کو انسان اپنے گھر میں ادا کرے، لیکن جب فقہاء نے یہ دیکھاکہ لوگ گھر جا کر بعض اوقات سنتوں کو ترک کرد یتے ہیں، اس لئے انہوں نے یہ بھی فرمادیا کہ اگر سنتیں چھوٹنے کا خوف ہو تو مسجد ہی میں پڑھ لیا کریں، تاکہ چھوٹ نہ جائیں، ورنہ اصل قاعدہ یہی ہے کہ گھر میں جا کر ادا کریں، اور نفل کے بارے میں تمام فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ نفل نماز میں افضل یہ ہے کہ اپنے گھر میں ادا کرے، اور نفلوں کی جماعت حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے، یعنی اگر جماعت سے نفل پڑھ لئے تو ثواب تو کیا ملے گا، الٹا گناہ ملے گا۔

فرض نماز جماعت کے ساتھ اور نوافل تنہائی میں 

بات در اصل یہ ہے کہ فرائض دین کا شعار ہیں ، دین کی علامت ہیں ، لہذا ان کو جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے ، کوئی آدمی یہ سوچے کہ اگر میں مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھوں گا تو اس میں ریاکاری کا اندیشہ ہے ، اس لیے میں گھر ہی میں نماز پڑھ لوں ، اس کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ، اس کو حکم یہ ہے کہ مسجد میں جاکر نماز پڑھے ، اس لیے کہ اس کے ذریعہ دین اسلام کا ایک شعار ظاہر کرنا مقصود ہے ، دین اسلام کی ایک شوکت کا مظاہرہ مقصود ہے ،اس لیے اس کو مسجد ہی میں ادا کرو،لیکن نوافل ایک ایسی عبادت ہے جس کا تعلق بس بندہ اور اس کے پروردگار سے ہے ، بس تم ہو اور تمہارا اللہ ، تم ہو اور تمہارا پروردگار ہو ،جیسا کہ حضرت صدیق اکبرؓ کے واقعہ میں آتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تلاوت اتنی آہستہ سے کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ :

اسمعت من ناجیت

یعنی جس ذات سے یہ مناجات کررہا ہوں اس کو سنادیا ، اب دوسروں کو سنانے کی کیاضرورت ہے ؟لہذا نفلی عبادت کا تو حاصل یہ ہے کہ وہ ہو اور اس کا پروردگار ہو ، کوئی تیسرا شخص درمیان میں حائل نہ ہو ، اللہ تعالی یہ چاہتے ہیں کہ میرا بندہ براہ راست مجھ سے تعلق قائم کرے ، اس لیے نفلی عبادتوں میں جماعت اور اجتماع کو مکروہ قرار دے دیا ، اوریہ حکم دے دیا کہ اکیلے آؤ،تنہائی اورخلوت میں آؤ، اورہم سے براہ راست رابطہ قائم کرو ، یہ خلوت اورتنہائی کتنا بڑا انعام ہے ، ذرا غور تو کرو، بندہ کو کتنے بڑے انعام سے نوازا جارہاہ ے کہ خلوت اور تنہائی میں ہمارے پاس آؤ۔

گوشہ تنہائی کے لمحات

یہ فضیلت والی راتیں شور وشغب کی راتیں نہیں ہیں ، میلے ٹھیلے کی راتیں نہیں ، یہ اجتماع کی راتیں نہیں ، بلکہ یہ راتیں اس لیے ہیں کہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر تم اللہ تعالی کے ساتھ تعلقات استوار کرلو ،اور تمہارے اور اس کے درمیان کوئی حائل نہ ہو:

میان عاشق ومعشوق رمزیست
کراما کاتین را ہم خبر نیست

’’ہم سے اکیلے اور تنہائی میں عبادت نہیں ہوتی‘‘

لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ اگر تنہائی میں عبادت کرنے بیٹھتے ہیں تو نیند آجاتی ہے ، مسجد میں شبینہ اور روشنی ہوتی ہے ، اورایک جم غفیر ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے نیند پر قابو پانے میں آسانی ہوجاتی ہے ، ارے !اس پر یقین کرو کہ اگر تمہیں چند لمحات گوشہ تنہائی میں اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کے میسر آگئے تو وہ چند لمحات اس ساری رات سے بدرجہابہتر ہیں جو تم نے میلے میں گزاری ، اس لیے کہ تنہائی میں جو وقت گزارا وہ سنت کے مطابق گزارا ، اورمیلے میں جو وقت گزارا وہ خلاف سنت گزارا ،وہ رات اتنی قیمتی نہیں جتنے وہ چند لمحات قیمتی ہیں جو آپ نے اخلاص کے ساتھ ریا کے بغیر گوشہ تنہائی میں گزارلیے۔

میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ اپنی عقل کے مطابق کام کرنے کا نام دین نہیں ، اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں ، بلکہ ان کے کہنے پر عمل کرنے کا نام دین ہے ، ان کی پیروی اور اتباع کا نام دین ہے ، یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی تمہارے گھنٹے شمار کرتے ہیں کہ تم نے مسجد میں کتنے گھنٹے گزارے ؟وہاں گھنٹے شمار نہیں کیے جاتے ، وہاں تو اخلاص دیکھا جاتا ہے ، اگر چند لمحات بھی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ میں میسر آگئے تو وہ چند لمحات ہی ان شاء اللہ بیڑا پار کردیں گے ، لیکن اگر آپ نے عبادت میں کئی گھنٹے گزار دیے ،مگر سنت کے خلاف گزارے تواس کا کچھ بھی حاصل نہیں۔

عورتوں کی جماعت کا مسئلہ

ایک مسئلہ عورتوں کی جماعت کا ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں کی جماعت پسندیدہ نہیں ہے ، چاہے وہ فرض نماز کی جماعت ہو ، یا سنت کی ہو ، یا نفل کی ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کو یہ حکم فرمادیا کہ اگر تمہیں عبادت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو، جماعت عورتوں کے لیے پسندیدہ نہیں ، جیساکہ میں عرض کیا کہ دین اصل میں شریعت کے اتباع کا نام ہے ، اب یہ مت کہو کہ ہمارا تواس طرح عبادت کرنے کو دل چاہتا ہے ، اس دل کے چاہنے کو چھوڑ دو ، اس لیے کہ دل تو بہت ساری چیزوں کو چاہتا ہے ، اور صرف دل چاہنے کی وجہ سے کوئی چیز دین میں داخل نہیں ہوجاتی ، جس بات کو رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں کیا ،اس کو محض دل چاہنے کی وجہ سے نہ کرنا چاہیے ۔

شب برات اورحلوہ

بہرحال یہ شب برات الحمد للہ فضیلت کی رات ہے، اور اس رات میں جتنی عبادت کی توفیق ہو، اتنی عبادت کرنی چاہئے، باقی جو اور فضولیات اس رات میں حلوہ وغیرہ پکانے کی شروع کرلی گئی ہیں، ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ شب برأت کا حلوہ سے کوئی تعلق نہیں، اصل بات یہ ہے کہ شیطان ہر جگہ اپنا حصہ لگا لیتا ہے، اس نے سوچا کہاس شب برات میں مسلمانوں کے گناہوں کی مغفرت کی جائے گی، چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ اتنے انسانوں کی مغفرت فرماتے ہیں جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے جسم پر بال ہیں،شیطان نے سوچا کہ اگر اتنے سارے آدمیو ں کی مغفرت ہوگئی، پھر تو میں لٹ گیا،اس لئے اس نے اپنا حصہ لگا دیا، چنانچہ اس نے لوگوں کو یہ سکھا دیا کہ شب برأت آئے تو حلوہ پکایا کرو، ویسے تو سارے سال کے کسی دن بھی حلوہ پکانا جائز اور حلال ہے، جس شخص کا جب دل چاہے، پکا کر کھالے، لیکن شب برات سے اس کا کیا تعلق؟ نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے، نہ حدیث میں اس کے بارے میں کوئی روایت، نہ صحابہ کے آثار، نہ بتابعین کے عمل میں اور بزرگان دین کے عمل میں کہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں، لیکن شیطان نے لوگوں کو حلوہ پکانے میں لگادیا، چنانچہ سب لوگ پکانے اور کھانے میں لگ گئے، اب یہ حال ہے کہ عبادت کا اتنا اہتمام نہیں، جتنا اہتمام حلوہ پکانے کا ہے۔

پندرہ شعبان کا روزہ

ایک مسئلہ شب برأت کے بعد والے دین یعنی پندرہ شعبان کے روزے کا ہے، اس کو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھو، لیکن یہ روایت ضعیف ہے، لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص اس پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں، البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضلیت ثابت ہے، یعنی یکم شعبان سے ستائیس شعبان تک روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے، لیکن ۲۸، اور ۲۹، شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کے لئے انسان نشاط کے ساتھ تیاررہے، لیکن یکم شعبان سے ۲۷ شعبان تک ہر ردن روزہ رکھنے میں فضیلت ہے، دوسرے یہ کہ پندرہ تاریخ ایام بیض میں سے بھی ہے، اور حضور اقدسﷺ اکثر ہر ماہ کے ایام بیض میں تین دن روزہ رکھا کرتے تھے، یعنی ۱۳،۱۴،۱۵، تاریخ کو، لہٰذا اگر کوئی شخص ان دو وجہ سے ۱۵ تاریخ کا روزہ رکھے، ایک اس وجہ سے کہ یہ شعبان کا دن ہے، دوسرے اس وجہ سے کہ یہ ۱۵ تاریخ ایام بیض میں داخل ہے، اگر اس نیت سے روزہ رکھ لے تو ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا،لیکن خاص پندرہ تاریخ کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزے کو سنت قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں، اسی وجہ سے اکثر فقہاء کرام نے جہاں مستحب روزون کا ذکر کیا ہے وہاں محرم کی دس تاریخ کے روزے کا ذکر کیا ہے، یوم عرفہ کے روزے کا ذکر کیا ہے، لیکن پندرہ شعبان کے روزے کا علیٰحدہ سے ذکر نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ شعبان کی کسی بھی دن میں روزہ رکھنا افضل ہے، بہر حال اگر نقطہ نظر سے کوئی شخص روزہ رکھ لے تو انشاء اللہ اس پر ثواب ہوگا، باقی کسی دن کی کوئی خصوصیت نہیں، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ ہر معاملے کو اس کی حد کے اندر رکھنا ضروری ہے، ہر چیز کو اس کے درجہ کے مطابق رکھنا ضروری ہے، دین اصل میں حدود کی حفاظت ہی کا نام ہے، اپنی طرف سے عقل لڑا کر آگے پیچھے کرنے کا نام دین نہیں، لہذااگر ان حدود کی رعایت کرتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھے تو بہت اچھی بات ہے، ان شاء اللہ اس پر اجرو ثواب ملے گا، لیکن اس روزے کو باقاعدہ سنت قرار دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

رمضان کے لیے پاک صاف ہوجاؤ!

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت کو بے اصل کہنا غلط ہے ، اور مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہ شب برات رمضان المبارک سے دو ہفتے پہلے رکھی ہے ، یہ درحقیقت رمضان المبارک کااستقبال ہے ، رمضان کی ریہرسل ہورہی ہے ، رمضان کی تیاری کرائی جارہی ہےکہ تیار ہوجاؤ، اب وہ مقدس مہینہ آنے والا ہے ، جس میں ہماری رحمتوں کی بارش برسنے والی ہے ، جس میں ہم مغفرت کے دروازے کھولنے والے ہیں ،اس کے لیے ذرا تیار ہوجاؤ، دیکھیے جب آدمی کسی بڑے دربار میں جاتا ہے تو جانے سے پہلے اپنے آپ کو پاک صاف کرتا ہے ، نہاتا دھوتا ہے ، کپڑے وغیرہ بدلتا ہے ، لہذا جب اللہ تعالی کا عظیم دربار رمضان کی صورت میں کھلنے والا ہے تواس دربار میں حاضری سے پہلے ایک رات دے دی ، اوریہ فرمایا کہ آؤ ، ہم تمہیں اس رات کے اندر نہلا دھلا کر پاک صاف کردیں ، گناہوں سے پاک صاف کردیں ، تاکہ ہمارے ساتھ تمہار ا تعلق صحیح معنی میں قائم ہوجائے ، اور جب یہ تعلق قائم ہوگا اور تمہارے گناہ دھلیں گے تواس کے بعد تم رمضان المبارک کی رحمتوں سے صحیح معنی میں فیض یاب ہوجاؤگے ،اس غرض کے لیے اللہ تعالی نے ہمیں یہ رات عطا فرمائی ، اس کی قدر پہچاننی چاہیے ، اللہ تعالی ہمیں اس مبارک رات کی قدر کرنے اوراس رات میں عبادت کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://islaminsight.org/2021/03/19/shab-e-barat-fast-of-15th-shaban-reality-virtues-few-misconceptions-about-night-of-mid-shaban-by-mufti-muhammad-taqi-usmani/
24,632 Views

Shab e Barat & Fast of 15th Shaban: Reality, Virtues & Few Misconceptions About Night of Mid Shaban, By Mufti Muhammad Taqi Usmani

Compiled By: Mufti Umar Anwar Badakhshani

Night of mid Shaban: Proof of the virtue of Shab e Barat

The month of Sha’ban has begun in which there is a blessed Night, named “Shab e Bara’at”. Some people think that the excellence of this night is not proved from the Qur’an and the Ahadith and it is baseless to keep vigil in this night. They think that worship and devotion in this Night have no special claim to reward. Moreover, they think that it is a Bidah (innovation) to specify this night for some special worship. As such, various questions are arising in the minds of the people about this night. Hence discourse about it.

I must tell you here briefly that I have repeatedly clarified that it is a Bidah (innovation) to count as a part of Deen all those forms of worship which cannot be proved valid from the Holy Qur’an, the Sunnah, the statements and practices of the Noble Companions (R.A) as well as from the acts and practices of the Tabieen (followers of the companions). I have also been telling you from time to time that it is no Deen to invent some practice from one’s own mind and follow it as an item of Deen. On the other hand, Deen is the name of compliance and obedience – compliance with, and obedience to, the Holy Prophet ﷺ, his ﷺ companions (R.A) the Tabieen, and the righteous saints and savants. If it is proved that this Night carries no distinctive feature, then it will be Bidah to invent it with special importance. I have expressed the same opinion about the Night of Ascension that the Qur’an and the Ahadith do not mention any special worship this Night.

It is not right to think that the excellence of this Night is baseless

It is in fact absolutely wrong to say that no excellence of Shab e Bara’at is proved from the Hadith. It is a fact that ten Noble companions (R.A) have narrated that the Holy Prophet ﷺ did mention the excellence of this Night. Some of these Ahadith are indeed weak in authenticity. On this account, some ‘Ulama have declared that the claim of excellence for this Night is baseless. It is, however, the decision of the Muhaddiseen and Doctors of religion that, if a weak Hadith is confirmed by many other Ahadith, its weakness in authenticity disappears. As I have already mentioned, narratives often companions (R.A) are available in support of the excellence of this Night. It is, therefore, not right to declare that the excellence of this Night is baseless. There is a narrative that in this Night Almighty Allah grants salvation to as many men as the number of the hair found on the goats of the Kalb tribe.

Care was taken to benefit from the excellence of this night during the earlier centuries of the Muslim Ummah. The people used to take special care to indulge in worship on this Night. It is, therefore, no right to call it a Bidah (innovation) or baseless. It is quite true that it is a Night of excellence which enjoys special importance. It is a source of reward and divine favor to take to worship and devotion in this Night.

What special act of worship should be done in Shab e Barat?

It is, however, quite correct to say that no specific form of worship has been prescribed for this Night. Some people have invented various ways of praying from their own minds. They suggest, without any proof and authority, that so many Rakats with such and such verses should be offered and so many times. This is all baseless. One may take advantage of this sacred Night by offering Nafl prayers, reciting the Holy Qur’an, remembering Allah, and counting over the beads (Tasbeeh) sacred words and phrases. They may also pass the Night by praying to Allah for His grants and favors. No specific form of worship is proved for this night.

To visit Graveyards in this Night

There is another activity for this night which is proved by a narrative that the Holy Prophet ﷺ once visited the graveyard, named Jannatul Baqi’. The Muslims also began to visit the graveyards in compliance with this narrative. My father Hazrat Mufti Muhammad Shafi’ Sahib (R.A) used to say something very useful about this issue. He said that in the matter of following the Holy Prophet ﷺ we should not try to overstep him #. It is narrated that the Holy Prophet ﷺ visited the graveyard of Janatul-Baqi’ in this Night only once in his ﷺ sacred lifetime. Following this Sunnah, it is all right to visit some graveyard only once in life. It would be overstepping the Holy Prophet ﷺ to visit graveyard regularly as a compulsory duty and to consider this practice as an inseparable part of the Shab-e-Bara’at and consider its omission as an omission of the Shab-e-Bara-‘at itself. If anyone visits a graveyard once in deference to the Prophet’s Sunnah, it is a good act deserving divine reward. This should, however, not be made a regular practice. It is a point of understanding Deen. Take everything concerning Deen at the same degree and level at which it is proved from the Ahadith and does not go beyond the permissible limits. You are free to observe other Nafl (optional) of worship and devotion, as you desire.

Salat al-Tasbeeh and Nafl in congregation on Shab Barat and Shab e Qadr

It has come to my knowledge that some people offer Nafl Prayers in this Night and in the Night of Power in the congregation. Previously people offered Shabina Prayers (Recitation of Qur’an during Ramazan) in the congregation, but now they have begun to pray the Salat al-Tasbeeh (A Nafl Prayer) also in the congregation. Congregation of Salat al-Tasbeeh is not lawful in any way. Note carefully a principle about congregational prayers. It is proved from the Holy Prophet ﷺ that prayers of Taraweeh, Kusoof, and Istisqa may be offered in congregation. It is better than prayers other than these should be offered at home. It is only the Farz (obligatory) Prayers that need to be offered in the congregation in the mosque. Not only is it better to do so, but it is also Sunnah Muakkada (confirmed), nearing in importance a compulsory prayer. The basic rule about Sunnah and Nafl prayers is that a man should offer them at home. When the Fuqaha (Islamic Jurists) saw that sometimes the people omit the Sunnah prayers at home, they also advised that if there was a likelihood for the Sunnah prayers to be ignored at home, then these too may be offered in the mosque. As regards Nafl prayers, there is a consensus of opinion among the Fuqaha that they should better be offered at home. Arranging congregation for Nafl Prayers is strictly unlawful in the opinion of the Hanafites. As such, to offer Nafl Prayers in the congregation will, in their opinion be a sin instead of an act of virtue to deserve any reward.

Obligatory (Fard) prayers in congregation, and Nafl Prayers in solitude

The Farz (obligatory) Prayers are a distinctive rite of Deen. It is imperative to offer them in the mosque in the congregation. It is not lawful to offer Farz Prayers at home. It would not be lawful and right for anyone to think that it would be an act of ostentation to offer prayer in the mosque in a congregation. Farz Prayers must be offered in the mosque in the congregation because praying in this way is a demonstration of a distinctive rite of Islam and Islam’s might and dignity.

which represents a personal relation between the Namazi and his Creator and Nourisher, Allah. This is demonstrated in what happened with Hazrat Siddiq Akbar (R.A). The Holy Prophet ﷺ asked him (R.A) why he recited the Qur’an in such a low voice, He (R.A) replied saying:

أسمعت من ناجیت

I was reciting it to Him Whom I was addressing in my Prayer.

(Abu Dawood, Book of Salat Hadith No: 1329)

In so far as Nafl Prayers are concerned, they are like a secret whisper between the devotee and his Allah. None should intervene between the two. Allah desires that His servants should establish direct contact with Him. That is why congregations and assemblies have been declared disgustful in the matter of optional forms of worship. The servant of Allah has been commanded to approach his Allah alone and in seclusion. What a great prize is this seclusion and privacy! Just reflect on this divine gift and favor.

The moments of loneliness

These Nights of excellence and blessings do not admit hue and hubbub. These are not nights of revelry and festivals. They have been granted to you that sitting all alone you may establish your relationship with Allah when there is none to intervene between you and Allah.

میان عاشق ومعشوق رمزیست

کراما کاتبین را ہم خبر نیست

A Persian couplet means: Between the lover and the beloved there is a secret of which even the twin recording angels are not aware.

“It’s difficult for us to  worshiped alone and in solitude”

Some people say, as an excuse, that while praying in loneliness sleep overwhelms the devotee. The attack of sleep is easily resisted when there is a gathering in the mosque full of men and when it is brightly illuminated with extra candles and bulbs. This excuse is not plausible.

If you succeed in getting a few moments for communion with Allah in loneliness and privacy, then these few moments are far better than the entire Night spent in the hue and hubbub of the crowds. The moments spent in loneliness spent according to the Sunnah and the time spent otherwise in crowds is spent against the Sunnah. You must admit the blessings of the moments spent with Allah in loneliness according to the Sunnah.

I have repeatedly mentioned that it is not Deen to work according to your own wisdom, nor is it Deen to satisfy your fancy, Deen consists in obeying Almighty Allah. Do you think that Allah will count the hours which you have spent in the mosque? No, hours are not counted. It is the sincerity that is valued. If you are lucky enough to get only a few moments of communion with Allah, those few moments will take you to the shore of salvation. Hours spent in worship against the Sunnah of the Holy Prophet ﷺ will take you nowhere.

Congregation of women!

What is the injunction about the congregation of female Namazis? It is not desirable for women to pray in a congregation whether the prayer is Farz, Sunnah, or Nafl. Allah has commanded women to worship in loneliness in their homes. So congregation for praying is not desirable for women. As I have mentioned earlier, Deen consists in obeying the injunction of the Shariah and not in the satisfaction of one’s own choice or fancy. In the matter of Deen, one’s personal preference or choice has no place. We should not do things which the Holy Prophet ﷺ has not approved or permitted.

Sweetmeats and Shab e Bara’at

This Shab-e-Bara’at is a sacred Night of excellence. It is good to put in as much worship on this Night as possible. As regards other useless rites and customs invented for this Night, they are too evident to need any detailed exposition. One of these is the preparation of sweetmeats. This has nothing to do with this sacred Night. In fact, it is Satan’s seduction to entangle the Muslims in such frivolities, so that they may remain away from the blessings of this Night. There is a narrative that in this Night Almighty Allah grants salvation to as many men as the number of the hair found on the goats of the Kalb tribe.

Treacherous Satan saw that it would be a great loss to him if so many men received salvation. So he taught the people to prepare sweets on the occasion of the Shab e Barat. It is quite lawful to prepare sweetmeats and enjoy them throughout the year but this has nothing to do with this Night. This custom is proved neither from the Qur’an nor from the Ahadith, nor from the practices and sayings of the Noble Companions (R.A). The people do not pay heed to worship and good deeds as they do in preparing sweetmeats. This is due to the seduction of Satan.

Fasting on the Fifteenth Day of Sha’ban

There is another question asked about fasting on the day following the Shab e Bara’at, viz., the fifteenth of Sha’ban. It should be noted that among the entire collection of the Ahadith, one narrative is a weak one. On this account, some Ulama does not regard it as an act of Sunnah or even a Mustahab (desirable) act to fast on the fifteenth Sha’ban. It is, however, proved that it is an act of excellence to observe fasting during the period from the first to the twenty-seventh of Shaban. The Holy Prophet ﷺ has forbidden to fast on the 28th and 29th days of Sha’ban so that a man may remain well prepared and energetic for fasting in the month of Ramazan. It is, however, meritorious to observe fast on days in the period from the first to the twenty-seventh day of Shaban.

Moreover, this fifteenth day of Sha’ban is one of the three days of Ayyam Beez (the white days), i.e. the 13th, 14th, and 15th of each month. The Holy Prophet ﷺ used to observe fasts frequently on these three days. If a man fasts on the 15th day of Sha’ban because firstly it is a day of the month of Sha’ban and secondly, because this day is one of the three days of Ayyam Beez, he will, God willing, be granted recompense for his fasting. It is, however, not right, in the opinion of some Ulama, to regard fasting on this day as Sunnah, only because it is a day of the month of Sha’ban. While mentioning the Mustahab (desirable) days of fasting, most Ulama has included fasting on the 10th of Muharram and the day of Arafah, but they have not said anything separately about fasting on the 15th of Sha’ban. All that they have said is that it is meritorious to fast on any day in the month of Sha’ban. If anyone observes fast on this day from this angle of vision he will be entitled to reward. Except for this, no other day has any importance.

I have already mentioned that every matter has to be dealt with within its prescribed limits and its approved level. In fact, Deen consists in the protection of the prescribed limits and not in transgressing these limits of one’s own discretion and choice.

Fasting on the 15th of Sha’ban should be regarded as an act of Sunnah, yet if anyone fasts on this day will due regard to the limits, he will be entitled to the divine reward.

Prepare and purify yourself for the month of Ramazan!

At any rate, it is not correct to say that this Night, the Shab e Bara’at, has no basis to be regarded as a Night of virtues. I am inclined to feel that by appointing it two weeks before Ramazan Almighty Allah has made it a happy precursor for the sacred fasting of Ramazan month. It is a rehearsal of, and preparation for, fasting in Ramazan, so as to qualify for the mercy and forgiveness of Allah so generously showered in this month. So get ready for this divine favor.

When a man intends to attend a magnificent court, he makes himself neat and clean and puts on nice clothes. In the same way, when the most Dignified Court of Allah is going to be held in the form of Ramazan, Allah has granted one sacred Night for preparation before attending the divine Court. It is Allah’s desire that by cleaning and purifying himself in body and soul and from sins man may be able to establish a relationship with Him. When this is done man will be able to benefit from the flood of mercies and favors of Ramazan in the true sense. It is for this purpose that Allah has granted us this blessed Night. It should be respected and valued.

May Allah make us welcome this night with due regard and devote ourselves therein to worship. Aameen.

To read this article in Urdu, click on the link below:

21,547 Views

شب معراج کی تعیین ، فضیلت ، خاص عبادات، 27 رجب کا روزہ اور رجب کے کونڈوں کی حقیقت ، از مفتی محمد تقی عثمانی

ماہ رجب کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں ، ان کی حقیقت سمجھ لینے کی ضرورت ہے ، اس پورے مہینہ کے بارے میں جوبات صحیح سند کے ساتھ حضور اقدس ﷺ سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تو چاند دیکھ کر آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ :

اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان

اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرمایے،اورہمیں رمضان تک پہنچادیجیے ۔

یعنی ہماری عمر اتنی کردیجیے کہ ہم اپنی زندگی میں رمضان کو پالیں ، گویا کہ پہلے سے رمضان المبارک کی آمد کا اشتیاق ہوتا تھا ، یہ دعا آپ ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ، اس لیے یہ دعا کرنا سنت ہے ، اوراگر کسی نے رجب کے شروع میں یہ دعا نہ کی ہو تو وہ اب یہ دعا کرلے ، اس کے علاوہ اور چیزیں جو عام لوگوں میں مشہور ہوگئی ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل اور بنیاد نہیں ۔

کیا شب معراج کی فضیلت بھی شب قدر کی طرح ہے؟

۲۷ رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا ہے کہ یہ شب معراج ہے، اور اس شب کو ابھی اسی طرح گذارنا چاہئے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے، اور جو فضیلت شب قدر کی ہے، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے، بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ’’شب معراج کی فضیلت شب قدر سے بھی زیادہ ہے‘‘ اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کردیئے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں، اورہر رکعت میں فلاں فلاں خاص سورتیں پڑھی جائیں، خدا جانے کی کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہوگئیں، خوب سمجھ لیجئے! یہ سب بے اصل باتیں ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔

کیا شب معراج کی تاریخ یقینی طور پر۲۷ رجب ہی ہے؟

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریمﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے، اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی رات صحیح معنی میںمعراج کی رات تھی، جس میں آنحضرتﷺ معراج پر تشریف لے گئے۔

اس سے آپ خود اندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شب قدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شب قدر کے بارے میں ہیں تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷ رجب کو شب معراج قرار دینا درست نہیں۔

اوراگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپﷺ ۲۷ رجب ہی کو معراج کے لئے تشریف لے گئے تھے، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا، اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو یہ مقام قرب عطا فرمایا، اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لئے نمازوںکا تحفہ بھیجا تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے! لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ۲۷ رجب کی شب کو حاصل نہیں۔

حضور کی زندگی میں 18 مرتبہ شب معراج کی تاریخ آئی لیکن !!!

پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ معراج سن ۵ نبوی میں پیش آیا، یعنی حضورﷺ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸ سال تک آپ ﷺ دنیا میں تشریف فرما رہے، لیکن ان اٹھارہ سال کے دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپﷺ نے شب معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شب قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجرو ثواب کا باعث ہے، نہ تو آپﷺ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میںجاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود حضورﷺ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔

صحابہ کرام سے زیادہ دین کو جاننے والا کون ؟

پھر سرکاردوعالمﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم دنیا میں موجودرہے، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ایسا ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ۲۷ رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو، لہٰذا جو چیز حضور اقدسﷺ نے نہیں کی، اور جو آپ کے صحابہ کرام نے نہیں کی، اس کو دین کاحصہ قرار دینا، یا اس کو سنت قرار دینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (معاذ اللہ) حضورﷺ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کون سی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے،اگر صحابہ کرام نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اس کو کروں گاتو اس کے برابر کوئی احمق نہیں۔

لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے ، حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)، تابعین اور تبع تابعین (رحمہم اللہ )دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے اور دین پر مکمل عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یاان سے زیادہ دین کا ذوق رکھتا ہوں ، یا ان سے زیادہ عبادت گزار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے ، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا۔

شب معراج میں کسی خاص عبادت کا اہتمام اور ۲۷ رجب کے روزے کا کیا حکم ہے؟

اس رات میں عبادت کے لئے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے، یوں تو ہر رات میںاللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دیدیں وہ بہتر ہی بہتر ہے، لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، کل کی رات بھی جاگ لیں، اسی طرح پھر ستائیسویں را ت کو بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں او ر دوسری راتوں میں کوئی فرق اور کوئی نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔

اسی طرح ستائیس رجب کا روزہ ہے، بعض لوگ ستائیس رجب کے روزے کو فضیلت والا سمجھتے ہیں، جیسے کہ عاشورہ اور عرفہ کا روزہ فضیلت والا ہے، اسی طرح ستائیس رجب کے روزے کو بھی فضیلت والا روزہ خیال کیا جاتا ہے، بات یہ ہے کہ ایک یا دو ضعیف روایتیں تو اس کے بارے میں ہیں، لیکن صحیح سند سے کوئی روایت ثابت نہیں۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بعض لوگ ۲۷ رجب کو روزہ رکھنے لگے، جب حضرت فاروق اعظمؓ کو پتہ چلا کہ ۲۷ رجب کاخاص اہتمام کرکے لوگ روزہ رکھ رہے ہیں تو چونکہ ان کے یہاں دین سے ذرا ادھر ادھر ہونا ممکن نہیں تھا، چنانچہ وہ فوراً گھر سے نکل پڑے اور ایک ایک شخص کو جاکر زبردستی فرماتے کہ تم میرے سامنے کھانا کھاؤ،اور اس بات کا ثبوت دو کہ تمہارا روزہ نہیں ہے، باقاعدہ اہتمام کر کے لوگوں کو کھانا کھلایا تاکہ لوگوں کو یہ خیال نہ ہوکہ آج کا روزہ زیادہ فضیلت کا ہے، بلکہ جیسے اور دنوں میں نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں، اسی طرح اس دن کا بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں، آپؓ نے یہ اہتمام اس لئے فرمایا تاکہ بدعت کا سدباب ہو، اور دین کے اندر اپنی طرف سے زیادتی نہ ہو۔

شب معراج میں جاگ کر ہم نے کون سی برائی کر لی؟

بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اس رات میں جاگ کر عبادت کر لی اوردن میں روزہ رکھ لیا تو کون سا گناہ کر لیا؟ کیا ہم نے چوری کر لی ؟ یا شراب پی لی؟ یا ڈاکہ ڈالا؟ ہم نے رات میں عبادت ہی تو کی ہے اور اگر دن میں روزہ رکھ لیا تو کیا خرابی کا کام کیا ؟حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بتلادیا کہ خرابی یہ ہوئی کہ اس دن کے اندر روزہ رکھنا اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا اور خود ساختہ اہتمام والتزام ہی اصل خرابی ہے۔

دین اتباع کا نام ہے

میں یہ کئی بارعرض کر چکا ہوں کہ سارے دین کا خلاصہ ’’اتباع‘‘ ہے کہ ہمارا حکم مانو، روزہ رکھنے میں کچھ رکھا ہے، نہ افطار کرنے میں کچھ رکھا ہے اور نہ نماز پڑھنے میں کچھ رکھا ہے، جب ہم کہیں کہ نماز پڑھو تو نماز پڑھنا عبادت ہے اور جب ہم کہیں کہ نماز نہ پڑھو تو نماز نہ پڑھنا عبات ہے، جب ہم کہیں کہ روزہ رکھو تو روزہ رکھنا عبادت ہے، اور جب ہم کہیں کہ روزہ نہ رکھو تو روزہ نہ رکھنا عبادت ہے، اگر اس وقت روزہ رکھو گے تو یہ دین کے خلاف ہوگا، تو دین کا سارا کھیل ’’اتباع‘‘ میں ہے، اگر اللہ تعالیٰ یہ حقیقت دل میں اتار دے تو ساری بدعتوں کی خود ساختہ التزامات کی جڑ کٹ جائے۔ اب اگر کوئی شخص اس روزے کا کام زیادہ اہتمام سے کرے تو وہ شخص دین میں اپنی طرف سے زیادتی کررہا ہے اور دین کو اپنی طرف سے گھڑ رہا ہے، لہٰذا اس نقطہ نظر سے روزہ رکھنا جائز نہیں، ہاں! البتہ اگر کوئی شخص عام دنوں کی طرح اس میں بھی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو رکھ لے، اس کی ممانعت نہیں، لیکن اس کی زیادہ فضیلت سمجھ کر، اس کو سنت سمجھ کر، اس کو زیادہ مستحب اور زیادہ اجر وثواب کا موجب سمجھ کر اس دن روزہ رکھنا یا اس رات میں جاگنا درست نہیں بلکہ بدعت ہے۔

رجب کے کونڈوں کی شرعاً کیا حقیقت ہے؟

شب معراج کی تو پھر بھی کچھ اصل ہے کہ اس رات میں حضور اقدسﷺ اتنے اعلیٰ مقام پر تشریف لے گئے تھے،لیکن اس سے بھی زیادہ آج کل معاشرے میں فرض وواجب کے درجے میں جو چیز پھیل گئی ہے وہ کونڈے ہیں، اگر آج کسی نے کونڈے نہیں کئے تو وہ مسلمان ہی نہیں، نماز پڑھے یا نہ پڑھے، روزے رکھنے یا نہ رکھے، گناہوں سے بچے یا نہ بچے، لیکن کونڈے ضرور کرے، اور اگر کوئی شخص نہ کرے، یا کرنے والوں کو منع کرے تو اس پر لعنت اور ملامت کی جاتی ہے، خدا جانے یہ کونڈ کہاں سے نکل آئے؟ نہ قرآن وحدیث سے ثابت ہیں،نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے، نہ تابعین رحمہم اللہ سے، اور نہ بزرگان دین سے، کہیں سے اس کی کوئی اصل ثابت نہیں، اور اس کو اتنا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ گھر میں دین کا کوئی دوسرا کام ہو یا نہ ہو، لیکن کونڈے ضرور ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ذرا مزہ اور لذت آتی ہے، اور ہماری قوم لذت اور مزہ کی خوگر ہے، کوئی میلہ ٹھیلہ ہونا چاہئے، اور کوئی حظ نفس کا سامان ہونا چاہئے، اورہوتا یہ ہے کہ جناب! پوریاں پک رہی ہیں، حلوہ پک رہا ہے، اور ادھر سے ادھر جارہی ہیں، اور ادھر سے ادھر آرہی ہیں اور ایک میلہ لگا ہوا ہے، تو چونکہ یہ بڑے مزے کا کام ہے، اس واسطے شیطان نے اس میں مشغول کر دیا کہ نماز پڑھو یا نہ پڑھو، وہ کوئی ضر وری نہیں، مگر یہ کام ضرور ہونا چاہئے،بھائی !ان چیزوں نے ہماری امت کو خرافات میں مبتلا کردیا ہے:

حقیقت روایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھو گئی

اس قسم کی چیزوں کو لازمی سمجھ لیا گیا اور حقیقی چیزیں پس پشت ڈال دی گئیں ، اس کے بارے میں رفتہ رفتہ اپنے بھائیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے ، اس لیے کہ بہت سے لوگ صرف ناواقفیت کی وجہ سے کرتے ہیں ، ان کے دلوں میں کوی عناد نہیں ہوتا ، لیکن دین سے واقف نہیں ، ان بے چاروں کو اس کے بارے میں پتہ نہیں ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عید الاضحی کے موقع پر قربانی ہوتی ہے ، اور گوشت ادھر سے ادھر جاتا ہے ، یہ بھی قربانی کی طرح کوئی ضروری چیز ہوگی ، اور قرآن وحدیث میں اس کا بھی کوئی ثبوت ہوگا ،اس لیے ایسے لوگوں کو محبت ، پیار اور شفقت سے سمجھایاجائے ،اورایسی تقریبات میں خود شریک ہونے سے پرہیز کیا جائے ۔

خلاصہ

بہرحال ! خلاصہ یہ ہے کہ رجب کا مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے ، ا س لیے رمضان کے لیے پہلے سے اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے ، اس لیے حضور اقدس ﷺ دو مہینے پہلے سے دعا بھی فرمارہے ہیں ، اور لوگوں کو توجہ دلا رہے ہیں کہ اب اس مبارک مہینے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلو ، اور اپنا نظام الاوقات ایسا بنانے کی فکر کرو کہ جب یہ مبارک مہینہ آئے تو اس کا زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں صرف ہو ۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

15,090 Views

Determining Shab e Miraj, its Virtues, Acts of Worship, Fast of 27th Rajab & Reality of Koonday, By Mufti Muhammad Taqi Usmani

Many misunderstandings are current among the people about the month of Rajab. It is necessary to understand the true facts about this.

The Practice of the Holy Prophet ﷺ on sighting the Rajab moon

What is proved about this month on the basis of authentic Ahadith from the Holy Prophet ﷺ is that on sighting the Rajab moon he used to recite the following Du’a(supplication):

اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان

This means: O Allah grant us blessings in the months of Rajab and Sha’ban and take us to the month of Ramadhan.

In other words, extend the days of our life that we may overtake the month of Ramadhan during our lifetime. Thus the believers anxiously waited for the arrival of the sacred month of Ramadhan. This Du’a is proved from the Holy Prophet ﷺ on the basis of authentic Hadith, so it is an act of Sunnah. If anyone did not recite this Du’a in the beginning, he should do so now.

There is no place in the Shari’ah for the many customs that have become vogue among the people, during this month.

Is the superiority of Shab e Miraj equivalent to Shab e Qadr?

It has been widely circulated about the night of 27th Rajab that it is the night of Mi’raj which should be passed like the Night of Power. They believe that the virtues of the night of Mi’raj are more or less like those of the night of Power. I have seen a board with writing thereon mentioning that the night of Mi’raj is more virtuous than the Night of Power. For this night people have invented certain forms of prayer to be offered with specific recitations and styles. It should be well understood that all these are baseless practices having no place in the Islamic Shari’ah.

Is 27 Rajab the definite date of Shab e Miraj?

First of all, it is not certain that the 27th of Rajab is the night in which the Holy Prophet ﷺ performed the celestial ascension. There are various narrations on this point. According to some of these, the Holy Prophet ﷺ performed Mi’raj in the month of Rabi’ul-awwal and according to some others in the month of Rajab. Still, some other narrations mention other months. So there is no certainty about the exact date of the night of Miraj.

Why was the date of Miraj not preserved?

You may think for yourself that if the night of Mi’raj had been a special night with special injunctions about it like the night of Power, the month and date of its occurrence must have been preserved. As this was not done, it is not right to specify with any certainty the 27th of Rajab as the night of Mi’raj.

Whatever the date of its occurrence, it cannot be denied that it was a splendid night in which Almighty Allah conferred on the Holy Prophet ﷺ the unique honor of inviting him to His Elevated Court. Indeed, very splendid was that night about whose magnificence no Muslim can feel the slightest doubt.

The night of Miraj occurred 18 times during the Prophet’s ﷺ life.

The event of Mi’raj took place in the fifth year of his Prophethood. This means that after this unique event, the Holy Prophet ﷺ lived in this world for 18 years. During this long period of 18 years, there is no evidence that he ever issued any special injunctions about the night of Mi’raj or made arrangements for its celebration, or advised the Muslims to keep a vigil on this night in devotion carries more reward. There is no evidence of any such injunction of the Holy Prophet ﷺ nor did he himself do anything to celebrate this night nor did he even ask the Noble Companions to do so, nor did the Companions arrange in this night any celebration on their own account.

Who has greater knowledge of Deen than the Companions ?

After the sad demise of the Holy Prophet ﷺ his Noble Companions lived in the world after him for about one hundred years. During the entire period of this one century, there is no proof of even a single incident in which the Noble Companion took care to celebrate the night of the 27th Rajab. It is an innovation (Bid’at) to declare something as part of religion, as an act of Sunnah or to treat it as Sunnah which neither the Holy Prophet ﷺ nor the Companions ever did. There is not a greater fool than he who says: Never mind, I shall do that; because I know more (God forbid) than the Holy Prophet ﷺ which night carries greater virtue, or I have greater enthusiasm for devotion and that I shall do what the Companions did not do.

So far as Deen (faith) is concerned, it is a fact that the Companions, then the Tabi’een, then the Taba’ Tabi’een knew and followed Deen (faith) more thoroughly and sincerely than all others, He is really a madman who claims to know more of Deen, to have greater enthusiasm for it or to be more worshipful than these reverend personalities of Islam.

What is the ruling regarding classifying special acts of worship in Shab e Miraj and keeping fast on 27th Rajab?

It is, therefore, Bidah to arrange for special forms of worship on this night. Worship and devotion are good; there is no harm if one keeps vigil for the purpose of worship in this night and in other nights but no special emphasis should be laid on worship on this particular night because this night of the 27th Rajab has no distinction over other nights.

Some people fast on the 27th of Rajab and believe that fasting on this day has the same virtues as fasting on the days of ‘Aashoorah and the ‘Arfah. There is one or two weak narratives about this but none is proved by authentic evidences.

Some persons started fasting on the 27th of Rajab during the Caliphate of Hazrat ‘Umar Farooq When he came to know that some persons take special care to fast on the 27th of Rajab, he went out to stop this Bid’at, as he could not tolerate the slightest deviation from the true path of the Faith. He approached everyone suspected of fasting and asked him to eat something before him to ensure that the man was not fasting. He did this to impress upon the people that the fasting on that day had no special virtue and was a Bid ah. Fasting on this day was just like fasting on any other day. He took this care and trouble to eradicate from among the people the practice of Bidah, so that they may not add to or take from Deen anything of their own free will.

What wrong have we done by waking up in Shab e Miraj?

Some people ask: What sin did we commit if we kept night vigil to worship and fasted during the day? Did we commit theft, drink wine or commit dacoity? We only devoted ourselves to worship during the night and fasted during the day. What harm is there?

Deen (Faith) is the name of obedient following (of injunctions)

Hazrat Umar Farooq told the people that Almighty Allah did not prescribe fasting on that date and the real vice lies in self-invented practices. I have explained many times that the essence of the Deen (Faith) consists in the obedience to the injunctions of the Shari’ah. Allah demands absolute obedience. Prayer, Fasting, etc., are worships only when Allah commands His servants to perform these acts of worship. It is also worship and devotion when Allah commands to shun them. It will be going against Deen if one does something as the worship of his own free will which Allah has not prescribed. The essence of Deen is the obedient following of Deen. If Allah lets people know this truth, then the practices of Bidah shall be uprooted.

Self-made excesses in religion

Now if anyone gives special importance to fasting on this date he is willfully committing an excess in the matter of Deen and is thus inventing a fake Deen of his own. To fast on this date from this point of view is not lawful. There is, however, no objection to fasting on this date by a man who fasts as he does usually on other days. It is, however, a Bid ah to fast on the 27th of Rajab under the mistaken impression that it is more virtuous; it is an act of Sunnah (which it is certainly not) and that it is desirable and it carries a greater and better reward.

The Reality of the Self-Invented custom of the Koonda

The night of Mi’raj has importance in being the night on which the Holy Prophet # performed his celestial journey. A custom made more important and binding in our days is that of the Koonda so much so that if a person does not observe this baseless custom he is looked down upon as though he were not a Muslim. He must observe this custom, notwithstanding that he may be missing his prayers, fasts, and maybe committing sins. The person who does not observe this custom or advises others against this is cursed and hated. God knows how this irreligious and disgustful custom sprang up. It is traceable neither in the Qur’an nor in the Traditions, nor among the companions, their immediate and next followers, nor among the Muslim saints and Ulama. Its advocates say that it must be observed even if the obligatory and essential duties of Deen are being ignored. It may be attributed, like many other Bidat, to the pleasures of eating and drinking and extracting fees from the ignorant public. In observing the custom of the Koonda and such other customs there is shown, gaiety, exchange of nicely cooked dishes, and merry-making. As these are joyous customs, full of fun, Satan has engaged the people in them and seduced them from other compulsory duties.

This Ummah is lost in Nonsense

These nonsensical customs and activities have involved the Muslim Ummah in frivolities:

حقیقت روایات میں کھو گئی

یہ امت خرافات میں کھوگی

The truth is lost in false stories and this (Muslim) Ummah is lost in nonsense and frivolities.

Such useless, rather harmful, practices and activities are regarded to be binding. It is necessary to train and instruct the unwary public in these matters. Most people have fallen victim to such nonsense only owing to their ignorance and not to any hostile tendencies towards religion. They think that just like the occasions of the Eid Festivals, this too may be a festivity allowed in the Qur’an and the Traditions, as so many people observe it. It is necessary, therefore, to teach such persons with love and sympathy the true spirit of religion and by avoiding attendance in such baseless and harmful practices.

SUMMARY

What has been explained above may be summarized by saying that the month of Rajab is an introduction to the holy month of Ramadhan. It is, therefore, necessary to keep yourself prepared in advance for this month. The Holy Prophet # has prayed for His Ummah and drawn attention to the blessings of Ramadhan three months before its advent so that they should be able to amend their usual program of life, in order to devote to piety and righteousness in this sacred month to the best of their capacity. May Almighty Allah have mercy on us and help us to understand and follow the path of Islam. Aameen.

To read this article in Urdu, click on the link below:

13,686 Views

A Seeker of knowledge: The Life of Shaikha Sajida Faruqui

Translated By: Amina Elahi

The Blessed Prophet ﷺ said: Whoever treads a path in search of knowledge, Allah makes him tread a path from the paths of paradise. Indeed the angels spread their wings in delight at the seeker of knowledge. The inhabitants of the heavens and earth and the fish in the depths of the sea seek forgiveness for the scholar. The superiority of the scholar over the worshipper is like that of the full moon over the stars. Scholars are the heirs of the Prophets’ peace upon them.

The Muslim ummah has suffered a tremendous loss upon the demise of the blessed and honored teacher, Shaikha Sajida Faruqui, daughter of Ahmad Zafar Faruqui. She was the granddaughter of the 4th Prime Minister of Pakistan, Chaudhry Mohammed Ali, and the principal of Madrassa Ayesha Siddiqua Lil Banat in Karachi, Pakistan. She passed away on the night of Friday, 23rd Jumadi s Sani, 1442 AH, 5th February 2021. May Allah have mercy upon her and engulf her in His infinite forgiveness and pardon all her sins and admit her into the vast, lush gardens of Paradise. Ameen.

We would like to present an excerpt regarding her scholarly attainments and services to Islam. This excerpt has been taken from the book, THE LIFE OF THE MUHADDIS, SHEIKH MOHAMMED ABD UR RASHEED NOMANI, (may Allah have mercy upon him) written by his son, Dr. Abd us Shaheed Nomani.

“Madrassa Ayesha Siddiqua is widely regarded as one of the most outstanding madrassas for girls in Pakistan and has the distinction of being the first of its kind. It was founded by the Chaudhry Mohammed Ali trust, which was set up by Dr. Amjad Ali, the son of Chaudhry Mohammed Ali, former Prime Minister of Pakistan.

Madrassa Ayesha Siddiqua was founded in 1989 under the supervision and tutelage of Shaikha Sajida Faruqui. She possessed a remarkable intellect, swift to grasp intellectual subtleties, and a phenomenal retentive memory. Highly disciplined and dedicated, she was the epitome of obedience to Allah. She learnt the science of Hadith from my blessed father and studied under his tutelage for eight years. Throughout this time, she would come to him daily, traversing a considerable distance with dedicated determination.

Thus, she studied the following books with him “AL HISN UL HASEEN” by Imam Shamsuddin Abul Khair Muhammad Bin Muhammad Bin Ali al Jazri, “ULOOM UL HADITH IL MAROOF BI MUQADAMA IBN IS SALAH” by Imam Hafiz Abi Amr Usman ibn Abdur Rahman As Shaheer ibn is Salah, “NUKHBATUL FIKR FI MUSTALAHA AHL IL ASR” by Hafiz Ibn Hajar al Asqalani and the preface to “SAHIH MUSLIM” along with Kitab ul Iman, Kitab ul Ilm as well as selected chapters from the book, “SHARH MA’ANI AL ASAR” and from the book, “KITAB UL HUJJAH ALA AHL IL MADINA”. Furthermore, she studied the entire “SAHIH BUKHARI” from the beginning to the end.

She was extremely proficient in Arabic, the science of Hadith, Usool ul Hadith and Islamic Jurisprudence. She wrote a book on Arabic Grammar, entitled LISAN UL QURAN. Her students helped in its writing. This textbook comprises three volumes. She also wrote a treatise on fiqh entitled, “BAYUH AL AINATI WAL AJAAL”.

The renowned scholar, Mohammed Taqi Usmani has said regarding this treatise:
“The proficient sister has condensed all that has been written about this topic in the books of fiqh, she has elucidated the different opinions regarding this topic according to the different schools of thought (madhahib) and she has also elaborated the differences of opinion between the scholars regarding the permissibility and unlawfulness therein. All of this has been set forth with remarkable lucidity so as to facilitate understanding and to completely obviate any confusion or misunderstanding for the reader.

It is my firm conviction that this treatise will prove invaluable for any seeking to comprehend the rulings of such transactions. May Allah recompense her and reward her abundantly in the world and the Hereafter. May Allah grant her the enabling grace to perform many such pure deeds, from which people and nations may benefit and Allah is the Possessor of tawfiq.

Indeed she is of the righteous, obedient worshippers of Allah. She took Bayah in the four Silsilas from Sheikh Nomani. After she took the Tareeq from him, she traversed the different stages of the spiritual path. She dedicated her entire life to the service of the madrassa and focused on raising devoted students of deen whose sole purpose was to invite people to Allah. Her students were from the upper strata of society, she taught them and guided them to the path of Sacred knowledge and guidance. She was so pure that she refused to put her name on the books she wrote. Such was her dislike of fame and renown that she always sought to conceal herself.

She founded Madrassa Ayesha in order to train young Muslim girls in Arabic, the Islamic sciences and to acquaint them with true Islamic values, and give them an upbringing in accordance with the traditions of our pious predecessors. The fundamental purpose along with others is to teach the students proficiency in Arabic and to propagate it in Pakistan thereby facilitating an understanding of the Holy Quran as well as other Islamic texts.

Madrassa Ayesha Siddiqua begins from the Montessori level and by the final level, the students have acquired mastery over Arabic and the Islamic sciences. Indeed it is the surpassing excellence of Arabic in the students which makes Madrassa Ayesha so unique.

Sheikh Nomani also taught “SAHIH BUKHARI” and “SHARH MA’ANI AL ASAR” to the final year students of Madrassa Ayesha and he highly praised their intelligence, perseverance, and proficiency in Arabic.

2,848 Views

Difference Between Qadianis & Other Non-Muslims, By Maulana Yusuf Ludhianvi Shaheed

What distinguishes a Qadiani from other Non-Muslims?

The difference between  Qadianis and other Non-Muslims such as Jews, Christians, and Hindus, is the deception of  ‘Kufr’. ‘Kufr’ in both cases is the negation of Islam. But ‘Kafirs’ of the world do not put the label of Islam on their ‘Kufr’ and do not propagate their ‘Kufr’ is Islam. A Qadiani, on the other hand, puts a label of Islam on his ‘Kufr’ and deceives Muslims by saying it, Islam.
There are three kinds of kafirs.

1- ‘Kafir’ (Unbeliever)

2-  ‘Munafiq’ (Hypocrite)

3- ‘Zindeeq’ (Dualist-Infidel)

Category No. 1:
Jews, Christians, Hindus, etc., are undoubted ‘Kafirs.’ The Polytheists Mushriken of pre-Islamic Makkah was also included in this category.

Category No. 2:
In the second category is Hypocrites Munafiqen who recites:

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

from the tongue but hide ‘Kufr’ in their hearts.
Thus the ‘Kufr’ of ‘Hypocrites’ (Munafiqeen) is greater than that of normal ‘Kafirs’.

Category No. 3
The ‘Kufr’ of this category exceeds the ‘Kufr’ of Munafiqeen, because they present their pure ‘Kufr’ in the nomenclature of Islam by twisting the verses of the Holy Quran & the sacred ‘Ahadith’ of the prophet (ﷺ)  They called ‘Dualist-infidels’ (Zindeeq) in Shari’at’s terminology.

WHO IS AN APOSTATE?

An apostate (Murtad) is a person who abandons Islam. All four schools of ‘Fiqah’ unanimously agree that in the case of an apostate (Murtad), Shari’at allows him three days to enable him to remove his doubts. All possible efforts should be made to clarify his doubts to make him re-enters Islam otherwise he should be sentenced. This precept is known as awarding capital sentences to an apostate. None of the Imams differs on this issue. Laws of all civilized countries and governments award capital punishment to rebels. An apostate is a rebel of Islam. Therefore apostasy (lrtedad) is punished with a capital sentence.
Surprisingly there are no objections to the hanging of a person when caught in a conspiracy against any government, no law of any civilized court disagrees with this.
Why do then people disapprove of capital punishment for a person who rebels against Allah’s prophet (S.A.W)? Islam does concede three days grace to enable the apostate to remove his doubts and repent. But if he is adamant about his apostasy then Allah’s sacred soil deserves to be cleaned of his foul existence.
This indeed is the unanimous verdict of the four Imams, and theologians, and fuqaha of Shari’at law. Wisdom and sagacity demand it and the safety of Millat lies in it.

SHARIAH RULING FOR DUALIST-INFIDEL :ZINDIQ

A dualist-infidel is worse than an apostate because he is bent upon presenting his ‘Kufr’ is Islam. Imam Shafi and Imam Ahmed, in their well-known sayings, were pleased to ordain that a dualist-infidel (Zindeeq) is governed by the same orders as an apostate (Murtad).

VIEWS OF IMAM MALIK

Imam Malik, (R.A), goes one step forward to say:

لا أقبل توبۃ الزندیق

” I will not accept the penitence of a Dualist-Infidel”.
Capital punishment will certainly be given to him, although he may be penitent (Taaib) a hundred times. Because this crime is similar to adultery in which a person may be penitent (Taaib) for the future but his penitence will not save him from death. Similarly, hands are to be amputated for stealing. A thief, on arrest, may offer penitence (Tauba) but his offense will not go unpunished.
Similar sayings are on record from Imam Abu Hanifa and Imam Ahmed bin Hambal (R.A) that if a Dualist-Infidel offers penitence (Tauba) of his own free will, on Allah’s guidance his penitence will be accepted without capital penalty, provided no one came to know of his offense and he will be excused from punishment. Therefore, if a Qadiani renounces his ‘Qadianism’, on his own and offers penitence (Tauba) then he will be excused. On the contrary, if he offers penitence (Tauba) after arrest then it will not be accepted, irrespective of his repentance even a hundred times.

DIFFERENCE BETWEEN APOSTATE AND DUALIST-INFIDEL

There is another saying from Imam Malik and Imam Abu Hanifa, and one from Imam Ahmed (R.A), that Tauba of a dualist-infidel(Zindeeq)is not acceptable because he applied a false coating of Islam over his ‘Kufr’  same as selling pork as mutton and wine as ‘Zam-Zam’. This is a crime that is not excusable and is certainly punishable with a capital sentence.

QADIANIS’ COVENANT OF KUFR

In spite of their being die-hard ‘Kafirs’ Qadianis  present their ‘Kufr’ with the label of ‘Islam.’
This should be clearly understood that a person who doubts their being a ‘Kafir’ is not a Muslim. They say “we are Muslims, we are only a sect of Islam called Jamaat Ahmadiyya.” we offer namaz and we consider Hazrat Muhammad ﷺ as “khatam-un Nabieen i.e the last of the prophets. But they lie and deceive simple ignorant Muslims. They don’t even believe in  ‘Kalima Tayyiba:

لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ

WHY QADIANIS ARE DUALIST-INFIDELS (ZINDEEQ)

The whole world knows that Allah’s prophet Muhammad (ﷺ) was the last of the Prophets. On the occasion of his farewell Hajj, the prophet declared:

أیھا الناس أنا آخر الأنبیاء وأنتم آخر الأمم

“O, people! I am the last Prophet and you are the last Ummah.”
Besides, there are more than” Two hundred Ahadith” in which the Prophet, (ﷺ) himself explained about the finality of Prophethood (Khatme Nubuwwat). that there will be no prophet after him and that nobody will be given prophethood after him (ﷺ).

MEANING OF ‘LAST OF PROPHETS’

The last prophet (Khatam un Nabiyyeen) means no prophet after him; no person shall wear the crown of prophethood or sit on the throne of prophethood after Muhammad (ﷺ).

QADIANIS HAVE ALTERED MEANING OF ‘KHATAM UN NABIEEN’

Qadianis say that the epithet of ‘Khatam un Nabiyyeen’ does not mean that our Prophet is the last of the Prophets. In their opinion it means that our Prophet Muhammad (ﷺ) will certify future Prophets with his seal, i.e. on whomsoever he will stamp, that person shall become a prophet. What nonsense! In fourteen hundred years only one person, namely Ghulam Ahmad of Qadian has been stamped as a prophet.
The term ‘Khatam un Nabiyyeen’ means that our Prophet Muhammad (ﷺ) is the last prophet. No prophet will come after him. It is like an envelope which has been closed by sealing it. ‘Khatam’ means sealing. Therefore, the term ‘Khatam un Nabiyyeen’ means that the list of the prophets is completed and the seal has been placed on it. Neither a fresh entry is possible nor will there be any removal from that list.
But the Qadianis have changed the meaning of ‘Khatam un Nabiyyeen’ they claim that our Prophet can grant certificates of prophethood to any person. In other words, Allah, who was previously sending down prophets, has now transferred this department to Prophet Muhammad (ﷺ) for stamping people and making them prophets!!.

This is called infidelity (Zindaqiat). In this way, they pronounce the name of Islam for meeting their nefarious designs and twist the meaning of verses of the Holy Quran to suit their agnostic beliefs.
By Allah, I would not have cared one bit for them if they had plainly said: “We are not Muslims and Islam is not our religion”.

LOOK AT THE BAHAI RELIGION

In this religion, the Bahai’s believe in Bahaullah of Iran as their prophet. We call them ‘Kaafir’ and they have also declared that they have nothing to do with Islam. Well, there ends the matter.
But these Qadianis call their ‘Kufr’ like Islam and in this way deceive Muslims. It is for this reason that they are dualist-infidels (Zindeeq) and not simply Non-Muslims. Remember! A Muslim can be at peace with a Non-Muslim but never with a dualist-infidel (Zindeeq) or apostate (Murtad).
Qadianis impudently declare themselves Muslims and call us ‘Kaafirs’ I quote from  Mirza Bashir Ahmed Qadiani’s Kalima Al Fasl, P.110:
“Every person who believes in Musa but does not believe in Esa or believes in Esa and does not believe in Muhammad or believes in Muhammad but does not believe in the Promised Messiah (Mirza Ghulam Ahmad), is not only an Unbeliever (“Kafir”) but a thorough Unbeliever (“Pakka Kafir”) and an outcast from the Islamic fold”.

QADIANI KALIMA

The Qadianis claim that Prophet Muhammad (ﷺ) was destined to come down twice into this world, first in Makkah and this prophethood lasted 1300 years, and secondly in Qadian, at the start of fourteenth Hijra in the incarnation of Mirza Ghulam Ahmad. Therefore they believe that Mirza Ghulam Ahmad is the reincarnation of Muhammad (ﷺ) and consequently the Qadianis think of Mirza Ghulam Ahmad as Muhammad ur Rasulullah in their minds when reciting the Kalima Tayyiba. This is veiled ‘Kufr’.
I quote again Mirza Bashir Ahmed Qadiani from his Al Fasl, p. 158:
“The Promised Messiah (Mirza Ghulam Ahmad) is Muhammad ur Rasulullah himself who was reincarnated in the world for propagation of Islam. Therefore, we do not need a new Kalima.
From the above it is evident that for the Qadianis ‘La ilaha illallah Muhammad ur Rasulullah’ means ‘la ilaha illallah Mirza Rasulullah’  (Allah protect us from this sacrilege. Ameen).
However, we say that Mirza was not Muhammad ur Rasulullah incarnate; rather Mirza was Devil incarnate!
The truth about Qadianis which common people do not know.

The Qadianis believe in:

1. a different Prophet.
2. a different Quran.
3. a different Kalima.
4. a different Shari’at.
5. a different Ummat.
6. a different name of Quran, i.e.
‘Tazkira’ composed by Mirza Ghulam Ahmad Qadiani.

How with all these fundamental differences the Qadianis can claim and tell the world that they are Muslims and that their religion is Islam! They are Dualist-Infidels indeed. Allah protect us from their calumny and cunningness Ameen!

Qadianis call us ‘Kafirs’:

Just because of Mirza Ghulam Ahmad’s birth all the Muslims of the world have become ‘Kafirs’! Before his birth, our ‘Deen’ was Islam and we were Muslims. After his arrival, our ‘Deen has become ‘Kufr’ and we have become ‘Kafirs’!! Allah protect us from the Qadianis’ snare! Can there be any more nonsense to compare with?

CRIMES OF MIRZA GHULAM AHMAD OF QADIAN

He has committed these heinous crimes:
a. Claimed Prophethood.
b. started a new religion.
c. Called his followers Muslims.
d. Called followers of Muhammad (ﷺ) as ‘Kafirs’.

By the Law of Shari’at, they should be awarded capital sentences because they are Dualist-infidels (“Zindeeq”) If they are masquerading as Muslims on the face of the globe, it is because they have not been sentenced.
The Government has not placed any restrictions on the performance of their religious rites. They have been only told to stop calling the religion of Prophet Muhammad (ﷺ) as ‘Kufr’ and to stop calling their Qadiani religion as Islam; no more restriction than this. The Qadianis occupy high posts and offices in government administration and public services.

Otherwise, remember! The law of Shari’at ordains to award them the capital sentences. But the Government of Pakistan has given them a concession.  In spite of these concessions, they appeal to the United Nations and to the Courts of Jews and Christians, clamoring that the Pakistan Government has snatched their rights. Despite this concession, they proclaim that they are being tyrannized in Pakistan. In fact the Pakistan Government is treating them most kindly which they do not deserve.
Their hypocrisy is a disgrace for Deen e Islam.

Allah has said about these hypocrites:

وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ

“Allah testifies that the hypocrites are liars”.
These dualist-infidels (‘Zindeeq’) like an apostate (Murtad) must be awarded capital sentences.

TEN LEGITIMATE SONS AND ONE ‘NON DESCRIPT’

We belong to the Ummah of Prophet Muhammad (ﷺ)We fully believe in the Deen which he brought forth. We are his spiritual children. The Holy Quran speaks in these terms:

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ

‘The Prophet is more related to Muomins than their self is to them’.

And the Holy Quran further declares:

وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ

‘And his wives are their mothers’.

It is therefore evident that all the revered wives of the Holy Prophet (ﷺ)are our mothers and we call each of them ‘Ummul Momineen’ (Mother of Muslims); When they are our mothers, surely Hazrat Muhammad (ﷺ) is our spiritual father.

But children in a family are seldom identical but despite their differing personalities and varying individuality they are all members of one family and are known as children of the same parents.
Muslims have ever been the spiritual children of Allah’s Prophet Muhammad (ﷺ) for thirteen centuries, till, at the start of the fourteenth century, Mirza Ghulam Ahmad popped up from Qadian and claimed solely for himself the spiritual sonship of Allah’s Prophet Muhammad (S.A.W) and excluded all others. Mirza did not stop at that, he dubbed the Muslims as “Kafirs”. The whole Ummah of Islam has been abused by him as “illegitimate” keeping legitimacy only for himself. On this basis, Mirza Ghulam Ahmad in his own words calls all the Muslims as “Haram zadey” (bastard). Allah protects us from his slander and abuse. Excuse me for quoting the words of Mirza Ghulam Ahmad but I had to.

RAVING CLAIM

I ask the civilized courts of the world to dismiss Ghulam Ahmad’s raving claim of spiritual sonship as a stupid claim of that sinful vagrant of non-descript lineage who attempts to sever the connection of the whole Ummah from their Prophet (ﷺ) in spite of the Ummah’s complete submission to his “Deen” from A to Z. Have we made any alteration in the doctrines of Islamic faith or is it Ghulam Ahmad Qadiani who has sinfully done so?

DIALOGUE WITH A QADIANI

I told a Qadiani once: “We have been Muslims since thirteen centuries. Suddenly, in the fourteenth century, your Mirza Ghulam Ahmad appeared and made impossible claims. Here is an offer to you: if our present beliefs are according to Islamic beliefs of the past thirteen centuries, accept us and leave Ghulam Ahmad and if your present beliefs are according to the Islamic beliefs of the past thirteen centuries we shall accept you. Thus the discord will come to a permanent close. Now, answer me because the pros and cons are equal for both of us”.

That Qadiani replied firmly that  “The truth is that for us everybody is a liar except Mirza Sahib”.
This means that the Qadianis consider the Companions (Sahaba R.A) of the Prophet (ﷺ) as liars. The ‘Tabeyeen’ (contemporaries of Sahaba) ‘Aimma Mujtahideen ‘(authorities on religious matters and jurists), and ‘Mujaddideen’ (theological reformers) and the entire Ummah spread over fourteen hundred years (Naouz Billah) “All liars, except Mirza”! On this premise can the Qadianis claim even an iota of relationship with Islam and Muslims?

CHALLENGE TO MUSLIMS

Now you must have understood that Mirza Ghulam Ahmad Qadiani, the cheat, is deceiving the entire world by calling himself a spiritual child of the Holy Prophet (ﷺ).

I asked all Muslims: Don’t you have any grace left to confront these shameless Qadianis?.
They come to attend your meetings in public and private and repeat their nonsense. On your part, you are a quiet listener to the descendants of a non-descript masquerader.

Alas, our simple Muslim brethren! Now, what are the obligations–your, mine, and that of every Muslim? What does our honor demand? It demands at least to have faith in the truth of Islamic Shari’at’s decree on this issue, viz. capital punishment for an apostate and dualist-infidel. But it is up to the Government to respond to the Shari’at’s call. However, the least we could do is to cut off all social connections with them and don’t let them enter our gatherings and confront them boldly everywhere.

Britain is a big supporter of Qadianis and always protect them. It is for this reason that Mirza Tahir Ahmad, the Qadiani Arch-priest, has run away from Pakistan to take shelter there. sitting under their protection he is promoting his deceiving religion.

Our simple-natured Muslims of Africa, America, and Europe are not fully aware of what is Islam and do not know what is Qadianism, and have no opportunity to sit by any scholar or preceptor.  Qadianis have decided to mislead the whole world. For this purpose, tons of money has been budgeted to beguile the Muslims and others and trap them into the snare of Qadiani apostasy and infidelity. But by Allah’s grace and support of Alami Majlis Tahafuzze Khatme Nubuwwat, we have taken up the gauntlet under the banner of Hazrat Khatamun Nabieen Muhammad (ﷺ) The Qadiani camouflage and coat will soon be peeled off from every nook and corner of the world inshaAllah, just as it has been accomplished in Pakistan. 

A condensed version of a detailed article by Maulana Yusuf Ludhianvi Shaheed. Click on the link below to read this article in detail:

3,776 Views

مولانا یوسف بنوریؒ سے میرے روابط ، از ڈاکٹر اسرار احمدؒ

تحریر : ڈاکٹر اسرار احمدؒ

مولانابنوریؒ: سلسلہ شیخ الہند کی اہم ترین علمی کڑی

حضرت شیخ الہندؒ کی ذات جامع الصفات سے علم وعمل کے جو چشمے جاری ہوئے ان کا ایک اجمالی ذکر گزشتہ صحبت میں ہوچکا ہے ، اس سلسلہ میں انگریزی مثل Last but not the least کے مصداق ذکر میں آخری اور پانچواں لیکن خالص علمی اعتبار سے اولین اور اہم ترین سلسلہ وہ ہے جس کی پہلی کڑی تھے مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ ،اور دوسری اہم ترین کڑی تھے مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ۔

بیہقی وقت مولانا سید انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد رشید مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کا مزاج بھی بالکل غیر سیاسی اور خالص علمی بلکہ تعلیمی وتدریسی تھا ، اہل علم کے حلقے میں تو وہ یقینا بہت پہلے نمایاں اور معروف ہوگئے ہوں گے ، لیکن عوامی سطح پر ان کی شہرت ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت سے پہلے زیادہ تر صرف کراچی اوراس کے گرد ونواح تک محدود تھی ، البتہ ۷۴ء کی تحریک کے دوران وہ دفعتا ملک گیر شہرت کے حامل ہوگئے ، ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت اوراس کی نہایت شاندار کامیابی کے ضمن میں ایک طویل اداریہ راقم نے اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۴ء کے ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا تھا ،جس میں اس کی کامیابی کا ایک اہم سبب حضرت مولاناؒ کی قیادت وسیادت کو قرار دیا تھا ، راقم کا احساس ہے کہ یہ پورا اداریہ موجودہ حالات کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے ، راقم کو ان سے جو ذہنی وقلبی تعلق رہا ،اس کی اجمالی داستان الحمد للہ کہ ان کی وفات پر سپرد قلم ہوگئی تھی ، اور ’’میثاق‘‘ کی نومبر ۷۷ء کی اشاعت میں شائع ہوگئی تھی ، جو ذیل میں نقل کی جارہی ہے (۱۹۸۷ء)۔

موت العالم موت العالم

آہ ! مولانا سیدمحمد یوسف بنوریؒ

اس دار فانی میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے ، لیکن کچھ لوگوں کے انتقال سے ایک دم ایک مہیب خلاء پیدا ہوتامحسوس ہوتا ہے ،اور ایک بار تو دنیا واقعۃً اندھیر سی ہوجاتی ہے ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی وفات حسرت آیات یقینا اسی زمرے میں ہے ، اوراس سے پورے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے دینی وعلمی حلقے میں جو خلا پیدا ہوا ہے ،اس کے پر ہونے کی کوئی صورت بظاہر احوال تو دُور دُور تک نظر نہیں آتی ۔

ابتدائی ملاقاتیں

راقم الحروف۔۔۔۔۔میں لگ بھگ چھ ماہ ، اور پھر سن ۶۲ء تاسن ۶۵ء تقریبا چار سال کراچی میں مقیم رہا ، اوراس دوران میں اکثر جمعے جامع مسجد نیوٹاؤن (بنوری ٹاؤن ، جمشید روڈ) ہی میں ادا ہوئے اوراس طرح مولانا کے اقتداء کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہی ،اور مدرسہ اسلامیہ نیوٹاؤن (جامعہ علوم اسلامیہ ،علامہ بنوری ٹاؤن ،جمشیدروڈ) کے تعمیر وترقی کے مراحل بھی ’’واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت‘‘ کے مانند نگاہوں سے گزرتے رہے ، جس سے مولانا ؒ کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہوتا چلا گیا ، محب مکرم ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی(واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۷۷ء کی ہے ، بعدمیں ڈاکٹر عثمانی صاحب نے جو انداز اختیار کیا اس کے باعث اب راقم کا کوئی ربط وضبط ان سے نہیں ہے ) ان دنوں مولانا سے باقاعدہ دورہ حدیث میں شامل ہوکر استفادہ کررہے تھے ،اورساتھ ہی کچھ علاج معالجے کی خدمت بھی بجا لاتے تھے ، اس دوران میں ان کے ساتھ مولانا سے چند بار ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ، لیکن زیادہ تر رسمی اور سرسری انداز میں ، تاہم ان سرسری ملاقاتوں میں بھی مولاناؒ سے جو قرب ذہنی وقلبی پیدا ہوگیا تھا اس کا مظہر ہے کہ جب راقم نے سن ۱۹۶۶ء میں ’’میثاق‘‘ کی ادارت سنبھالی تو مولانا ؒ کی ایک تحریر مئی ۱۹۶۷ء کے شمارے میں شائع کی ، اور ’’حرمت صحابہ ‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون اپریل ومئی ۱۹۷۰ء کے مشترک شمارے میں شائع کیا ، حضرت مولانا ؒ کی یہ دونوں تحریریں نہایت اہم ہیں ، اوران شاء اللہ ’’میثاق‘‘ کی قریبی اشاعتوں میں دوبارہ شائع کی جائیں گی۔

مسجد نبوی میں اعتکاف اورراقم کی عبارت کی اصلاح

اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۰ء کے دوران رمضان المبارک کا پورا مہینہ راقم کو مدینہ منورہ میں بسر کرنے کی سعادت ملی تھی ، آخری عشرے میں مولانا بنوریؒ بھی تشریف لے آئے تھے اور مسجد نبوی میں معتکف تھے ، لہذا وہاں چند تفصیلی ملاقاتوں کا موقع میسر آیا ، راقم نے اپنا کتابچہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ مولانا کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ پیش کیا کہ اسے ایک نظر دیکھ لیں ،اور کوئی غلطی ہو تو متنبہ فرمادیں تاکہ اصلاح کرلی جائے ، مولانا ؒ نے اسے بالاستیعاب دیکھا اور ایک مقام پر عبارت میں اصلاح فرمائی جواگلے ایڈیشن میں کردی گئی ، راقم کی اصل عبارت یوں تھی :

’’لیکن پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے تعلیم پر زندگیوں کا اچھا بھلا عرصہ صرف کردیا ہو اور دنیا کے بہت سے علوم وفنون حاصل کیے ہوں ، مادی ہی نہیں ،غیر ملکی زبانی بھی سیکھی ہوں ،اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو ان کی یہ تلاوت نہ صرف یہ کہ بے کار اورلاحاصل ہوگی ،بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ قرآن کی تحقیر وتوہین اور تمسخر واستہزا کے مجرم گردانے جائیں !‘‘۔

جسے مولاناؒ نے بدل کریوں کردیا :

’’اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے وہ قرآن کی تحقیر وتوہین اور تمسخر واستہزا کے مجرم گردانے جائیں ،اور اس اعراض عن القرآن کی سزا تلاوت کے ثواب سے بھی بڑھ جائے ‘‘۔

اس طرح الحمد للہ کہ میری مراد بھی اورزیادہ واضح ہوگئی ،اور محض لفظی بے احتیاطی کے باعث منکرین حدیث سے جو مشابہت پیدا ہورہی تھی اس کا بھی ازالہ ہوگیا۔

مدینہ منورہ :قلبی تعلق کی تمہید

عید الفطر کے روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا، راقم مولاناؒ کی خدمت میں غالبا بخاری حضرات کی رباط میں حاضر ہوا ، راقم کی اس درخواست پر کہ اسے کچھ علیحدگی میں عرض کرنا ہے ، مولاناؒ نے فورا تخلیہ کا اہتمام فرمایا، تب راقم نے عرض کیا کہ ’’مجھے تشویش لاحق ہے کہ مسجد نبوی میں تو دل بھی لگتا ہے اور انشراح صدر وانبساط کی کیفیت بھی نصیب ہوتی ہے ،لیکن مسجدحرام میں قطعا دل نہیں لگتا !‘‘، یہ سنتے ہی مولانا ؒ پر رقت طاری ہوگئی ،اوران کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،اورانہوں نے فرمایا :’’ڈاکٹر صاحب! آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی دینی وروحانی الجھن کا ذکر کیا ہے ،ورنہ ہمارے پاس جو بھی آتا ہے دنیوی معاملات کا ہی رونا رونے آتا ہے ‘‘، راقم مولاناؒ کے اس شدت احساس سے حد درجہ متاثر ہوا ،اوریہ واقعہ راقم اور مولاناؒ کے مابین ایک قریبی قلبی تعلق کی تمہید بن گیا ۔

راقم کی کراچی آمد ورفت اور مولانا بنوریؒ کی شفقتیں

۱۹۷۲ء کےدوران راقم ہر ماہ کراچی اور گاہے گاہے مولانا کی زیارت سے مشرف بھی ہوتا رہا ، اسی زمانے میں ایک بار مولانا نے اپنے دورہ حدیث کے طلبہ سے خطاب کا موقع بھی عنایت فرمایا ،اور اگرچہ راقم مولانا کی موجودگی اور ان کے رعب علمی کے باعث کچھ کھل کر بات نہ کرسکا ،اوراس نے اعتراف بھی کیا کہ ’’میری حالت اس وقت وہی ہے جس کا نقشہ قرآن مجید کے ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے کہ :’ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی ‘، تاہم راقم نے جس طرح بھی بن پڑا ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی ،جس کی مولانا نے کھلے دل کے ساتھ تصویب فرمائی ۔

انہی دنوں مولاناؒ نے یہ محبت آمیز پیش کش بھی فرمائی کہ ’’جب بھی کراچی آنا ہو مدرسے ہی میں قیام کیا کرو ، تمہارے لیے ایک بالکل علیحدہ کمرہ مخصوص کردیا جائے گا‘‘، راقم کے لیے مولانا کی اس مشفقانہ پیش کش سے فائدہ اٹھاناتو بوجوہ ممکن نہ ہوسکا ، تاہم دل پر ان کی ان شفقتوں کا بے حد اثرہوا ، اور قلب میں مولانا کی عظمت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ محبت بھی جاگزیں ہوگئی ۔

قرآن کانفرنس لاہورمیں شرکت

وسط دسمبر ۱۹۷۳ء میں پہلی سالانہ قرآن کانفرنس منعقد ہوئی تو راقم نے مولانا کو اس میں شرکت کی دعوت دی ،جسے انہوں نے کمال شفقت سے قبول فرمالیا، چنانچہ حسب وعدہ تشریف لائے اور دُو دِن راقم کے غریب خانے ہی پر رونق افروز رہے ، راقم الحروف کو ۱۶؍دسمبر ۷۳ء کی اس شام کی کیفیات ابھی تک اچھی طرح یاد ہیں جب مولاناؒ نے ’’مقام رسالت‘‘ پر اپنی عالمانہ اورجذبہ انگیز تقریر فرمائی تھی ، جناح ہال نہ صرف یہ کہ خود پوری طرح کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، بلکہ اس کی تمام گیلریاں بھی انسانوں سے پر تھیں ، راقم نے مولانا کی تقریر کے بعد عرض کیا تھا کہ ’’میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر آج پوری طرح سمجھ میں آیا ہے کہ :

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است!!!

مولانا بنوریؒ کی سادگی اور بے تکلفی

اہالیان لاہور میں سے اکثر کے لیے مولاناؒ سے یہ پہلے تعارف کا موقع تھا ، اوراکثر وبیشتر لوگوں کے چہروں پر ایک خوش گوار حیرانی کا تاثر نمایاں تھا،اس دوران ان کی سادگی اور بے تکلفی کا جو تجربہ ہوا ،اس سے بھی دل بہت متاثر ہوا ، اوران کا یہ طرزعمل تو بہت ہی غیر معمولی نظر آیا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ آمد ورفت کا کرایہ وصول کرنے سے انکار کردیا ، بلکہ جب انجمن خدام القرآن کی کچھ مطبوعات ان کی خدمت میں پیش کی گئیں تو ان کی قیمت بھی باصرار ادا فرمائی ۔

مولانا فراہی واصلاحی کے متعلق مولانا بنوریؒ کی رائے اور راقم کا مولانا اصلاحی سے انقطاع تعلق

۱۹۷۵ء میں ’’تنظیم اسلامی ‘‘ کا قیام عمل میں آیا توراقم نے مولانا کو اس کے ’حلقہ مستشارین‘ میں شرکت کی دعوت دی تو فرمایا :’’ڈاکٹر صاحب! آپ مجھے بے حد عزیز ہیں ،آپ کو پوری آزادی ہے کہ جب چاہیں آئیں اورجو چاہیں مشورہ طلب کریں ، میں کبھی دریغ نہ کروں گا ، لیکن کوئی باضابطہ ذمہ داری قبول کرنے میں اپنی صحت کی کیفیت اور مصروفیت کی شدت کے باعث معذور ہوں ‘‘، اس کے بعد ایک اور بات بھی ارشاد فرمائی جو راقم دسمبر ۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں نقل کرچکا ہے ، حضرت مولاناؒ کی بقیہ بات یہ تھی :’’ویسے یہ بات بھی ہے کہ آپ مولانا فراہیؒ اور مولانا اصلاحی کو بہت اہمیت دیتے ہیں ،اور ہم ان کے معلم اول امام ابن تیمیہ کو علم کا بحر ذخار ماننے کے باوجود اہمیت نہیں دیتے توان لوگوں کی توحیثیت ہی کیا ہے !‘‘، راقم نے اس وقت اس کا ذکر مناسب نہیں سمجھا تھا ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مولانا اصلاحی صاحب کے ساتھ راقم کا ربط وتعلق کم ہوتے ہوتے معدوم کے درجے میں آچکا تھا ،چنانچہ دسمبر ۷۶ء کے ’’میثاق‘‘ میں راقم نے مولانا اصلاحی سے اپنے تعلقات کے انقطاع کااعلان بھی کردیا تھا۔

آخری ملاقاتیں

اس کے بعد افسوس ہے کہ مولانا سے صرف چندسرسری ملاقاتیں ہی ہوسکیں ، جن میں سے ایک میںمولانا نے دسمبر ۷۶ء کے متذکرہ بالا مضمون کا ذکر تحسین آمیز انداز میں کیا ، اوراپنی دو تازہ عربی تالیفات بھی عنایت فرمائیں ، جن میں سے ایک میں بعض وہی موضوعات زیر بحث آئے تھے جن پر راقم نے اپنی مذکورہ تحریر میں اظہار رائے کیا تھا ، غالبا اسی موقع پر راقم نے مولانا سے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’اس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلادیا ‘‘؟تو مولانا نے اس کی توثیق فرمائی اور مزید ارشاد فرمایا کہ ’’اس سے ایک طرف تو حضرت شیخ الہندؒ کے تواضع وانکسار کا اندازہ ہوتا ہے ،ارو دوسری طرف چھوٹوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی کا‘‘۔

راقم کی تحریر پر مولانا بنوری ؒ کی تنقید وگرفت

راقم الحروف کے لیے یہ بات تازندگی رنجم وغم کا باعث رہے گی کہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ کا جو غالبا آخری شمارہ مولانا کے اداریے کے ساتھ شائع ہوا ہے اس میں مولانا نے راقم کی ایک تحریر کے بعض مقامات پر گرفت فرمائی اور راقم سوچتا ہی رہ گیا کہ حاضر خدمت ہوکر بالمشافہ وضاحت پیش کرے یا تفصیلی خط لکھے کہ خبر آگئی کہ مولانا نے راول پنڈی میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ویسے جن حضرات سے بھی مولانا کی اس گرفت کے بارے میں بات ہوئی وہ گواہی دیں گے کہ راقم کو اس سے ہرگز کوئی تشویش نہیں ہوئی ،اس لیے کہ جہاں تک ’’گرفت‘‘ کا تعلق ہے ،اس کے بارے میں تو راقم کو یقین تھا کہ اس کی بنیاد غلط فہمی پر ہے ، اور جیسے ہی راقم وضاحت پیش کرے گا مولانا یقینا تسلیم فرمالیں گے ، اورجہاں تک محبت وشفقت کا تعلق ہے تو وہ مولانا کی اس تحریر سے بھی ٹپک رہی تھی ،یہاں تک کہ اپنے لیے مولانا کے قلم سے ’’آں محترم‘‘ کے الفاظ دیکھ کر تو اپنے آپ میں ایک شرمندگی کا سا احساس بھی ہوا ، البتہ حسرت ہے تو صرف اس کی کہ کاش مولانا سے ملاقات ہوجاتی اورراقم خود ان ہی کو گواہ بناتا کہ :راقم کو نہ مفسر بننے کاکوئی شوق ہے ، نہ ہی وہ جہنم سے نجات پاجانے کو ادنی درجہ کی کامیابی متصور کرتا ہے ، نہ اس کا کسی بھی درجہ میں کوئی تعلق ’’خارجیت‘‘ سے ہے ، اس لیے کہ وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو ہرگز کافر نہیں سمجھتا ، اوراس دنیا میں کسی کے ایمان کے فیصلے کا دارومدار عمل پر نہیں صرف ’’قول‘‘ پر سمجھتا ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ بعض حضرات ’’غلط فہمی‘‘ کے لفظ سے مغالطے کا شکار ہوجائیں ، اس میں ہرگز کوئی دخل مولانا کے سوء فہم کو حاصل نہیں ، یہ توثابت ہی ہے کہ مولانا نے راقم کی متعلقہ تحریر انجمن خدام القرآن کے طبع کردہ کتابچے ’’راہ نجات:سورہ والعصر کی روشنی میں ‘‘ میں نہیں پڑھی ، بلکہ ادارہ اشاعت علوم اسلامیہ ،چہلیک ، ملتان کے ماہانہ سلسلہ مطبوعات کے شمارہ نمبر ۱۴۴؍میں ’’انسان کا اصل سرمایہ‘‘ کے عنوان سے مطبوعہ رسالے میں پڑھی ، جس میں نہ صرف یہ کہ اس کا اول وآخر غائب ہے ، بلکہ راقم کا نام بھی ’’ڈاکٹر اسرارمحمدخاں ‘‘ درج کیا گیا ہے ، ثانیا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس تحریر کے بعض مقامات نشان زد کرکے مولانا کے سامنے رکھ دیے اورمولانا نے اس پر رائے رقم فرمادی ، واللہ اعلم۔

بہرحال راقم الحروف کے نزدیک مولانا کے ساتھ کم وبیش سات سالہ تعلقات کی انتہائی خوش گوار یادوں کے آخر میں اگر ایک ذرا سی تلخ یاد بھی شامل ہوگئی تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ، اس لیے کہ اس تلخی میں بھی محبت وشفقت کی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے ۔

مولانا کو ہماری دعاؤں کی ہرگز کوئی حاجت نہیں ، لیکن ان کے لیے دعا خود ہمارے لیے یقینا اجر وثواب کاذریعہ ہے ۔

اللہم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فی اعلی علیین ، برحمتک یا ارحم الراحمین۔

مولانا بنوریؒ کے صدقہ جاریہ

یہ ایک امر مسلم ہے کہ اللہ والوں کا اصل ترکہ اور عظیم ترین صدقہ جاریہ صالح اولاد ہوتی ہے ، راقم کاحضرت مولانا یوسف بنوریؒ کے صاحبزادے مولانا محمد بنوری سے مولانا کی وفات کے بعد بہت ہی کم ملنا ہوا ،لیکن چونکہ انہوں نے مولانا کی مجھ پر شفقت وعنایت کا مشاہدہ کیا ہوا ہے ،لہذا وہ میرا بہت لحاظ کرتے ہیں ۔

مولانا یوسف بنوری کا دوسرا عظیم صدقہ جاریہ ’’جامعہ علوم اسلامیہ ‘‘ ہے ، جس کی ایک ایک اینٹ پر مولانا کے عزم مصمم اورمحنت ومشقت کے نقوش اسی شان کے ساتھ ثبت ہیں جو نعیم صدیقی صاحب کے ان اشعار میں سامنے آتی ہے :

ہیں بالاکوٹ کی مٹی کے ذرے
ہماری آرزؤوں کے مزارات
ہیں ہر ذرے کی پیشانی پر منقوش
ہمارے عزم کے خونیں نشانات

اس جامعہ کا ماہانہ مجلہ ’’بینات‘‘ بھی مولاناؒ ہی کا صدقہ جاریہ ہے ، جس کے ’’بصائر وعبر‘‘ کے صفحات سالہا سال تک ان ہی کے رشحات قلم سے مزین ہوتے رہے ،اور جس کی ادارت ان کی وفات کے بعد مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے سپرد ہوئی جو مولانا کو اپنا ’’شیخ اور مربی‘‘ بھی قرار دیتے ہیں اوران کے ساتھ ہم نامی کی اضافی نسبت بھی رکھتے ہیں ۔

ماخوذ از: جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ، ڈاکٹر اسرار احمد ، یکے از مطبوعات تنظیم اسلامی

3,652 Views
error: Content is protected !!