Sample Page

گمراہ اور حقیقی صوفی کون ہے ؟ از شاعر مشرق علامہ اقبالؒ

ترتیب وپیشکش: عمر انور بدخشانی

تعارف: نیچے دیا گیا مضمون شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کی ایک نامکمل کتاب ’’تاریخ تصوف‘‘کا اقتباس ہے ، تصوف پر علامہ اقبال کی یہ کتاب ۱۹۱۶ء میں لکھی گئی اور ایک طویل عرصہ تک گوشہ گمنامی میں رہی اورپہلی بار ۱۹۸۵ ء میں پروفیسر صابر کلوروی صاحب نے ترتیب وحواشی کے ساتھ شائع کی ،اس کتاب کا بنیادی مقصد تصوف کی حقیقت اور تاریخ کو اُجاگر کرنا ہے ، علامہ اقبال اس موضوع پر فقط ابتدائی دو باب تحریر کرپائے تھے، مزید ابواب مرتب کی طرف سے اضافہ ہیں،تصوف اور صوفیاء سے متعلق علامہ اقبال کی کتاب ’’تاریخ تصوف ‘‘سے نیچے دیا گیا یہ اقتباس بہت اہم ہے ، خاص طور پر تصوف، صوفیاء اور عرفان کے عنوان سے جو گمراہیت پھیلائی جارہی ہے علامہ اقبال نے یہاں واضح طور پر لکھ دیا کہ اصل صوفی کہلانے کے مستحق کون ہیں؟

tareekh e tasawwuf allama iqbal
تاریخ تصوف پر علامہ اقبالؒ کی نادر کتاب

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی کتاب ’’تاریخ تصوف‘‘ سے انتخاب

تصوف کالٹریچراور مختلف الخیال مصنفین

تمہید کے بعد ہم اس بحث کی طرف توجہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تحریک تصوف کی ابتدا کیونکرہوئی؟ مگر پیشتر اس کے کہ ایسا کریں ایک اور بات کا واضح کردینا ضروری ہے ، تاکہ ناظرین کو ہماری نسبت غلط فہمی نہ پیدا ہوجائے ، اور وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ مضمون کا مقصد صوفی تحریک کو دنیا سے مٹانے کا ہے ، تصوف کا لٹریچر نہایت وسیع ہے ، اور اس کے دائرے کے اندر مختلف الخیال مصنفین آباد ہیں:

1:ان میں بعض ’’مخلص مسلمان‘‘ ہیں۔

2:بعض محض اپنے ’’الحاد اور زندقہ کو تصوف کی آڑ میں چھپاتے ہیں‘‘۔

3:اور بعض نیک نیتی سے ’’غیر اسلامی فلسفے کو فلسفہ اسلامی تصور کرتے ہیں‘‘ ۔

صوفیاء کے دو گروہ اورحقیقی صوفی کون ؟

ہم مختصر طور پر یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ نظری اور عملی پہلوسے وہ کونسا نصب العین ہے جس پر ہم معترض ہیں ، بغیر اس کے کہ تصوف کی کوئی جامع ومانع تعریف کی جائے جو ہمارے نزدیک ناممکن ہے ، یہ ظاہر ہے کہ عام طور پر متصوفین کے دو گروہ ہیں:

1- اول وہ گروہ جو شریعت حقہ محمدیہ پر قائم ہے ، اوراسی پر مخلصانہ استقامت کرنے کو انتہائے کمال انسانی تصور کرتا ہے ، یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن شریف کا مفہوم وہی سمجھا جو صحابہ کرام نے سمجھا تھا ، جس نے اس راہ پر کوئی اضافہ نہیں کیا جو رسول اللہ ﷺ نے سکھائی تھی ، جس کی زندگی صحابہ کرام کی زندگی کا نمونہ ہے ، جو سونے کے وقت سوتا ہے ، جاگنے کے وقت جاگتا ہے ، جنگ کے وقت میدان جنگ میں جاتا ہے ، کام کے وقت کام کرتا ہے ، آرام کے وقت آرام کرتا ہے ، غرض یہ کہ اپنے اعمال وافعال میں اس عظیم الشان انسان اور سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے جو نوع انسانی کی نجات کا باعث ہوئی ۔اس گروہ کے دم قدم کی بدولت اسلام زندہ رہا ، زندہ ہے اور زندہ رہے گا ، اوریہی مقدس گروہ اصل میں ’’صوفی ‘‘کہلانے کا مستحق ہے ۔

راقم الحروف (اقبال) اپنے آپ کو ان مخلص بندوں کی خاک پا تصور کرتا ہے ، اپنی جان ومال وعزت و آبرو ان کے قدموں پر نثار کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہے ،اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو ہر قسم کے آرام وآسائش پرترجیح دیتا ہے ۔

2- دوسرا گروہ وہ ہے جو شریعت محمدیہ کو خواہ وہ اس پر قائم بھی ہو محض ایک ’’علم ظاہری‘‘ تصور کرتا ہے ، ایک طریق تحقیق کو جس کو وہ اپنی اصطلاح میں ’’عرفان‘‘ کہتا ہے ’’علم‘‘ پر ترجیح دیتا ہے، اوراس عرفان کی وساطت سے مسلمانوں میں وحدت الوجودی فلسفے اور ایک ایسے عملی نصب العین کی بنیاد ڈالتا ہے جس کا ہمارے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، اس گروہ میں بھی مختلف الخیال لوگ ہیں ،مگر ایک عام مماثلت پائی جاتی ہے جس کی تشریح اورتوضیح اس مضمون کا مقصد ہے ۔(۱)۔

لفظ ’’صوفی ‘‘کا استعمال

جبکہ آگے چل کر معلوم ہوگا(۲) کہ لفظ ’’صوفی‘‘ پہلے پہل ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو اپنے زمانے کے تعیش کے خلاف اسلام کی اصل سادگی پر قائم تھے ،اور ان معنوں میں کوئی صاحب ہوش لفظ ’’صوفی‘‘ یا ’’تصوف‘‘ پر اعتراض نہیں کرسکتا ، لیکن مسلمانوں کی مذہبی اور ذہنی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرور ایام کے ساتھ اوائل صوفیہ میں نیا گروہ پیدا ہوا ، یا یوں کہیے کہ اس نئے گروہ نے اپنے آپ کو ’’صوفیہ‘‘ میں داخل کرلیا(۳)، اس گروہ نے اسلامی زہد وعبادات کی فلسفیانہ اور مذہبی حقائق معلوم کرنے کا ایک اور اصول قائم کرلیااوراس اعتبار سے ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی ، یہی گروہ ہے جو سطلنت روما کے سیاسی اجزا کی پریشانی کا باعث ہوا۔

حواشی

(۱) یہاں پہلے علامہ ؒ نے ایک تیسرے گروہ کا بھی ذکر کیا تھا جسے بعد میں قلم زد کردیا، قلم زد عبارت درج ذیل ہے :

’’ایک تیسرا گروہ دوکاندار صوفیا کا بھی ہمیشہ رہا ہے ، جو عجیب وغریب چالاکیوں سے سادہ لوح مسلمانوں کو پھانستا ہے ،اور دعاؤں کو بذریعہ وی پی پارسلوں کے اپنے معتقدین کے پاس بھیجتا ہے ، اس گروہ کے کارنامے اور چالاکیاں حیرت انگیز ہیں ، اور بجائے خود انسانی تمدن وتاریخ کا ایک دل چسپ باب ہیں ، مگر چونکہ سب لوگ اس گروہ کے مردود ہونے پر متفق ہیں ، اگرچہ یہ تیسرا گروہ دوسرے گروہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ،تاہم چونکہ سب مسلمان اس کے مردود ہونے پر متفق ہیں اس واسطے اس کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

(۲) یہاں علامہؒ نے پہلے ایک عنوان :’’اسلامی تصوف کی اصلیت کے متعلق محققین مشرق ومغرب کے خیالات‘‘ قائم کیا ، پھر قلم زد کردیا،اور عبارت کو مسلسل بنادیا۔

(۳)اس فقرے کے بعد علامہؒ نے پہلے اس فقرے کا اضافہ کیا تھا:’’اس گروہ کو ’عارفین‘ کے نام سے موسوم کرنا چاہیے‘‘،پھر قلم زد کردیا۔

[تاریخ تصوف از علامہ محمد اقبال ، صفحہ 31 ، 32]

3,763 Views

Shariah Ruling: Cake & Sweets Offered by Christian on Christmas

NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.

Question

Christians celebrate Christmas on 25th December. During the celebration, if a Christian gives a box of sweets or cake to a Muslim what is the ruling regarding eating it?

Answer

Christians celebrate Christmas on December 25, which is their religious festival, and it is not permissible for Muslims to attend their religious festivals and exchange gifts with them on this day. In general, it is not permissible to take a gift from a Christian on Christmas while living in a Muslim country.

However, if by not accepting the gift there is a fear of trouble or on the basis of expediency it is permissible to accept it and if the thing itself contains halal ingredients (such as sweets, cakes, etc.) then it is permissible to eat it, and it will not be haraam but it is still better to give it to a needy afterward.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 228):
“قَالَ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَالْإِعْطَاءُ بِاسْمِ النَّيْرُوزِ وَالْمِهْرَجَانِ لَا يَجُوزُ) أَيْ الْهَدَايَا بِاسْمِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ حَرَامٌ بَلْ كُفْرٌ، وَقَالَ أَبُو حَفْصٍ الْكَبِيرُ – رَحِمَهُ اللَّهُ -: لَوْ أَنَّ رَجُلًا عَبَدَ اللَّهَ خَمْسِينَ سَنَةً ثُمَّ جَاءَ يَوْمُ النَّيْرُوزِ، وَأَهْدَى لِبَعْضِ الْمُشْرِكِينَ بَيْضَةً يُرِيدُ بِهِ تَعْظِيمَ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَقَدْ كَفَرَ، وَحَبِطَ عَمَلُهُ، وَقَالَ صَاحِبُ الْجَامِعِ الْأَصْغَرِ: إذَا أَهْدَى يَوْمَ النَّيْرُوزِ إلَى مُسْلِمٍ آخَرَ، وَلَمْ يُرِدْ بِهِ التَّعْظِيمَ لِذَلِكَ الْيَوْمِ، وَلَكِنْ مَا اعْتَادَهُ بَعْضُ النَّاسِ لَايَكْفُرُ، وَلَكِنْ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ لَايَفْعَلَ ذَلِكَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ خَاصَّةً، وَيَفْعَلُهُ قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ كَيْ لَايَكُونَ تَشَبُّهًا بِأُولَئِكَ الْقَوْمِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»، وَقَالَ فِي الْجَامِعِ الْأَصْغَرِ: رَجُلٌ اشْتَرَى يَوْمَ النَّيْرُوزِ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ يَشْتَرِيهِ قَبْلَ ذَلِكَ إنْ أَرَادَ بِهِ تَعْظِيمَ ذَلِكَ الْيَوْمِ كَمَا يُعَظِّمُهُ الْمُشْرِكُونَ كَفَرَ، وَإِنْ أَرَادَ الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ وَالتَّنَعُّمَ لَايَكْفُرُ”.

2,642 Views

Receiving Christmas Gifts from Company in a Non-Muslim Country

NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.

Question

We work for a British company and often work from abroad. The majority of workers are Christians here and we Muslims are few in numbers. When the time of Eid comes & we celebrate then these Christians regularly participate in it and greet us. when their religious day Christmas comes we do not attend because it is not permissible for us. The company on this occasion distribute Christmas presents among its staff which comprises of 1000, 1100 members. We try to avoid taking this gift. but it has a computerized card system, everyone gets the gift by clicking it. if no one takes it shows on the company’s record And they inquire about it. So what is the Shari’ah ruling for us in this situation?

Answer

Although it is permissible to take presents given by the non-Muslims on such occasions provided there is no regard and respect of their religious festivals in the heart but it is still better not to take them on the basis of similitude. However, there is no harm in taking it on the basis of expediency as mentioned above. The fatwa is in Fataawa Shaamiyah:

’’ولو أهدی لمسلم ولم یرد تعظیم الیوم بل جری علی عادة الناس لایکفر وینبغي أن یفعله قبله أو بعده نفیًا للشبهة‘‘.(شامی،ج:۶، ص:۷۵۴،ط:سعید)۔

In “Your problems and their solutions (By Maulana Yusuf Ludhianvi Shaheed)” is:

Question: The Christian employees of our company organize a Christmas party every year one or two days before Christmas Eve during office hours. As an act of courtesy, We Muslims also attend the party and eat cakes, etc. Is it right for Muslim employees to eat this food?

Answer: It is permissible. (Vol: 2, Page: 131)

The answer is in Fataawa Mahmodiyah:

Question: If the relatives of a Muslim lives in a Hindu village and cook food like puri kachori etc. which is significantly related to Hindu’s religious festivals like Holi, Diwali, etc.., is eating their food permissible for us or not?

Answer: It is better not to take the festival food that Hindus give to Muslim neighbors and associates. but if it is taken out of some expediency, then this food will not be considered haraam according to Shariah. (Vol: 18, Page: 34, Farooqia)

2,724 Views

Attending Christmas Party and Eating Christmas Cake

NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.

Question

I want to know that at the Christmas celebrations in our office we are also invited and offered a Christmas cake. should we attend the celebration and eat the cake?

Answer

Participation in the religious gatherings and festivals of non-Muslims or holding their festivals & ceremonies or congratulating and giving them gifts is expressing love and affection for them and showing likeness for their religion. This is illegal and forbidden by Shari’ah of Islam therefore it’s not permissible to attend a Christmas party, and eat a Christmas cake.

However, if there is a strong compulsion or fear of trouble and if the thing itself contains halal ingredients (such as sweets, cakes, etc.) then it is permissible to take it, and it will not be haraam for you but it is still better not to eat it and give it to a needy afterward.

The answer is in Fataawa Mahmodiyah:

Question: If the relatives of a Muslim lives in a Hindu village and cook food like puri kachori etc. which is significantly related to Hindu’s religious festivals like Holi, Diwali, etc.., is eating their food permissible for us or not?

Answer: It is better not to take the festival food that Hindus give to Muslim neighbors and associates. but if it is taken out of some expediency, then this food will not be considered haraam according to Shariah. (Vol: 18, Page: 34, Farooqia)

وفی البحر الرائق:

“قال – رحمه الله -: (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير – رحمه الله -: لو أن رجلاً عبد الله تعالى خمسين سنةً ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر ولم يرد به تعظيم اليوم ولكن على ما اعتاده بعض الناس لايكفر، ولكن ينبغي له أن لايفعل ذلك في ذلك اليوم خاصةً ويفعله قبله أو بعده؛ لكي لايكون تشبيهاً بأولئك القوم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم  فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئاً يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر”. (8 / 555،  مسائل متفرقہ فی الاکراہ، ط: دار الکتاب الاسلامی)۔

3,022 Views

Saying “Merry Christmas” to Non-Muslims

NOTE: It should be noted that the below answer is the English translation of the Fatwa issued by Jamia Uloom Islamia Allama Yusuf Banuri Town, Karachi, Pakistan.

Question

What is the ruling on greeting a non-Muslim at Christmas? Is this shirk?

Answer

The Shari’ah ruling on greeting non-Muslims on the occasion of religious festivals is that since these festivals are based on polytheistic beliefs, and as Muslims, it is necessary for us to express our dissociation and detachment from polytheism. Greeting them on Christmas shows support and acceptance of their point of view. So it is not permissible to wish them Merry Christmas.

If this greeting is meant to honor their religion, then there is a danger of disbelief. And if someone explicitly speaks anything related to polytheism at Christmas, then there is no doubt about his shirk.

2,875 Views

Participating in Gatherings which Contains Prohibited (Haram) Practices, By Mufti Taqi Usmani

Question

Not uncommon lately, are general gatherings in Western countries where Muslims are also invited. Such gatherings are mixed where liquor is also offered and consumed. If Muslims elect not to attend such functions, they are, on the one hand, alienated from the whole society while, on the other hand, they remain deprived of benefits that accrue from socialization. Is it permissible for Muslims to attend these gatherings under such circumstances?

Answer

Participation of Muslims in gatherings which constitute indulging in drinking, eating of pork and dancing and singing of women and men is not permissible, especially when there is no other general compulsion except the desire to be socially recognized. It is not proper for Muslims to bow down before such avenues of sin. The challenges to what Islam forbids being experienced by you give you all the more occasion to stay firm on your Faith. And should the Muslims living in non-Muslim countries and they are not that few – could agree on not participating in such functions, the chances are that non-Muslims themselves would be left with no reasonable option but to weed out such disagreeable practices from their functions.

Source: Contemporary Fataawa, By Mufti Muhammad Taqi Usmani

1,587 Views

کیا پیر، صوفی ، بزرگ اور درویش پر شریعت کے احکام معاف ہیں ؟ مولانا اشرف علی تھانویؒ

تسہیل وترتیب : مفتی عمر انور بدخشانی

صوفیاء بہت سے غلط خیالات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، ان سب کی اصلاح ضروری ہے ، تمام غلطیوں کی نشاندہی تو اس وقت ممکن نہیں ،اس لیے چند وہ غلطیاں جن میں آج کے لوگ مبتلا ہیں ان کو ذکر کرتے ہیں :

کیا تصوف میں اتباع شریعت کی ضرورت نہیں؟

فتوحات مکیہ میں ہے :

كل حقيقة علي خلاف الشريعة زنديقة باطلة

ترجمہ: ہر وہ حقیقت (صوفیانہ علوم وانکشافات) جو شریعت کے خلاف ہو وہ زندقہ اورباطل ہے اور مردود ہے ۔

اسی فتوحات میں ہے :

ما لنا طريق الي الله الا علي وجه المشروع لا طريق لنا الي الله الا ما شرعه

ترجمہ: ہم اللہ تعالی تک صرف شریعت کی پابندی سے ہی پہنچ سکتے ہیں ، ہمارے لیے اللہ کی طرف کوئی راستہ نہیں مگر وہی جو اس نے شریعت میں بتلادیا۔

نیز فتوحات میں ہے :

فمن قال ان ثم طريقا الي الله خلاف ما شرع فقوله زور فلا يقتدي بشيخ لا ادب

ترجمہ: جو شخص اس کا دعوی کرے کہ اللہ تک پہنچنے کا شریعت کے خلاف بھی کوئی راستہ ہے وہ اس قول میں جھوٹا ہے ، پس ایسے شخص کو مقتدا ،پیشوا نہ بنایا جائے جس میں ادب نہ ہو۔

حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

لو نظرتم الي رجل اعطي من الكرامات حتي يرتقي في الهواء فلا تغتروا به حتي تنظرونه كيف تجدونة عند الامر و النهي و حفظ الحدود و اداء الشريعة

ترجمہ: جب ایسا آدمی دیکھو کہ ان کو کرامتیں دی گئی ہیں ،یہاں تک کہ ہوا میں اڑتا ہے تواس کے ولی ہونے کے بارے میں دھوکہ میں مت آؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ شریعت کے حکم کی بجا آوری ، مامورات (احکام) کے انجام دینے اورمنہیات(گناہوں) سے بچنے کا کس قدر اہتمام کرتا ہے ۔

شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

الطرق كلها مسدودة علي الخلق الا من اقتضي اثر رسول الله صلي الله عليه وسلم

ترجمہ:مخلوق پر اللہ تعالی تک پہنچنے کے سب راستے بند ہیں سوائے اس کے جو قدم بقدم رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرے۔

اور فتوحات میں ہے :

فما عند الله من لم يحكمه بمكان فان الله ما اتخذ وليا جاهلا۔

ترجمہ: اللہ تعالی کے نزدیک اس شخص کا کوئی مرتبہ نہیں ہے جو اللہ تعالی کے احکامات سے ناواقف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے کسی جاہل کو ولی نہیں بنایا ہے ۔

فتوحات میں یہ بھی ہے :

ان البطالة مع العلم خير من العمل مع الجهل

ترجمہ: علم کے باوجود بیہودگی کرنا اس عمل سے بہتر ہے جو جہالت کی وجہ سے ہو ۔

یہ اس لیے کہ اگر عالم کوئی بیہودہ بات بھی کرتا ہے تو وہ ایسی بری نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے کفر وشرک تک نوبت پہنچ جائے ، چونکہ عالم اس بیہودہ بات کی برائی سے واقف ہے اس لیے عالم کی توبہ کی امید ہے ، جاہل کے برخلاف ، کیونکہ جاہل کے تو بسا اوقات ضروری اعمال یعنی نماز روزہ بھی درست نہیں ہوتے ، اور وہ لاعلمی میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جس کی وجہ سے کفر وشرک لازم آجاتا ہے ، چونکہ جاہل ان غلط باتوں کی برائی سے واقف نہیں ہوتا اس لیے اسے توبہ بھی نصیب نہیں ہوتی ، اس بارے میں بزرگوں کے ہزاروں ارشادات موجود ہیں کہاں تک لکھا جائے ۔

رسالہ قشیریہ میں حضرت ذو النون مصری سرسقطی ، ابو سلیمان ، احمد بن ابی الحواری وابو حفص حداد ، ابو عثمان نوری ، ابو سعد حراز کے ارشادات ، نیز دوسری کتابوں میں مثلا دلیل العارفین ، ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی ، مکتوبات قدسیہ حضرت شیخ قطب العالم عبد القدوس گنگوہی رحمہم اللہ اورقوت القلوب ابو طالب مکی وغیرہ میں یہ مضمون نہایت وضاحت اور استحکام کے ساتھ مذکور ومنقول ہے کہ :

’’فقیری (تصوف) میں اول علم شریعت پھر عمل شریعت کی سخت ضرورت ہے ، اس کے بغیر آگے راہ نہیں کھلتی‘‘۔

کبھی کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرکے اور بدعت کا طریق اختیار کرکے ولی نہیں بن سکتا،جب بدعت قاطع طریق ہے ، یعنی بدعتی کو ولایت حاصل نہیں ہوسکتی تو کفر وشرک کا کیا پوچھنا؟!!

حجاب اکبر اور آزادی کا دعوی

آج کل تو لوگوں نے علم اور عمل کی ضرورت کو اڑانے(ختم کرنے )کے لیے دو لفظ یاد کرلیے ہیں :

۱- علم کے بارے میں حجاب اکبر کا ۔
۲- اور عمل کے بارے میں آزادی کا دعوی۔

قارئین محترم ! اگر حجاب اکبر کا یہ معنی ہوں تو جتنے بزرگوں کے اوپر نام لکھے گئے ہیں سب محجوب ٹھہرتے ، درحقیقت یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے ، علم تصوف یا حقائق کے قاعدے سے اس کے بہت باریک معنی ہیں ، اس کے موٹے سے معنی یہ سمجھیں کہ حجاب اس پردہ کو کہتے ہیں جو بادشاہ کے قریب پڑا رہتا ہے کہ جو آدمی وہاں پہنچ جاتا ہے وہ بادشاہ کے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے ، تو اس طرح علم کو ’’حجاب اکبر ‘‘کہنا علم کی تعریف ہے ، یعنی جب علم حاصل کرلیا تو جتنے حجاب تھے سب اٹھ گئے یہاں تک کہ حجاب اکبر تک پہنچ گیا ، بس اب ایک تجلی سے حیرت کا غلبہ ہو تو یہ حجاب بھی اٹھ جائے اور واصل باللہ ہوجائے ، اور جس نے سرے سے علم ہی حاصل نہیں کیا نہ باقاعدہ درس کے ذریعہ ، نہ علماء حق کی صحبت کے ذریعہ وہ تو ابھی بہت پردوں کے پیچھے ہے اور اللہ تعالی سے بہت دور ہے۔

آزادی کا صحیح مطلب

رہا آزادی کا دعوی تو آزادی کےاصل معنی یہ ہیں کہ انسان شہوت اور غفلت کی قید سے آزاد ہوجائے ، یہ معنی ہرگزنہیں کہ محبوب حقیقی یعنی اللہ تعالی کے احکام سے آزاد ہوجائے۔

گر تو خواہی حری ودل زندگی
بندگی کن بندگی کن بندگی
زندگی مقصود بہر بندگی است
زندگی بے بندگی شرمندگی است
جزخضوع وبندگی واضطرار
اندر حضرت ندارد اعتبار
ہر کہ اندر عشق یابد زندگی
کفر باشد پیش او جز بندگی
ذوق باید تادہد طاعت بر
مغزباید تا دہد دانہ شجر

ترجمہ:اگر تو آزادی اور دل کی زندگی چاہتا ہے تو بندگی کر ،بندگی کر بندگی۔
زندگی کا مقصد بندگی ہی ہے ، زندگی بغیر بندگی کے شرمندگی ہے۔
خضوع بندگی اور عشق الہی کی بے قراری کے سوا نفس انسانی کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔
جس شخص کو عشق کی زندگی مل جائے ،اس کے نزدیک عشق کے علاوہ ہر بات کفر ہے ۔
ذوق چاہیے تاکہ عبادت بار آور ہو ،اور مغز ہونا چاہیے تاکہ دانہ سے درخت پیدا ہو۔

شبہ: طریقت اور حقیقت یعنی شریعت کے خلاف ہےجبھی تواس کے اسرار پوشیدہ رکھے گئے؟

اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ علم حقیقت (طریقت ،تصوف ) شریعت کے علم کے خلاف ہے ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بزرگ اس کے اسرار ورموز کو نہ چھپاتے ، کیونکہ شریعت تو اظہار کے قابل ہے نہ یہ کہ اسے پوشیدہ رکھا جائے ۔

اس شبہ کا جواب بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ ہمارا یہ دعوی نہیں کہ علم شریعت ہی کو علم حقیقت کہتے ہیں ،بلکہ دعوی یہ ہے کہ حقیقت اور طریقت کا علم ،شریعت کے خلاف نہیں ہے ، یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے تو ایک چیز کوحرام یا کفر کہا ہو اور علم طریقت اور حقیقت میں وہ حلال ہوجائے ، مثلادیوانی قانون اورہے ، فوجداری قانون اور ہے ، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک کام دیوانی قانون کے اعتبار سے جائز تو ہو اور فوجداری قانون کے اعتبار سے ناجائز ہو ، یا اس کا عکس ہو ، ہاں البتہ ہر ایک کے مضامین الگ الگ ہیں ، ایک کا مضمون دوسرے کے مضمون کا انکار نہیں کرتا ، اسی طرح طریقت اور حقیقت کا علم شریعت کے مضامین کا انکار نہیں کرتے ، سو طریقت اورحقیقت کے علم کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ سے جو شبہ ہوتا تھا وہ تو دور ہوگیا ۔

علم حقیقت یعنی تصوف اور صوفیاء کے اسرار ورموز پوشیدہ کیوں رکھے جاتے ہیں؟

اب سوال یہ ہوتا ہے کہ علم حقیقت اور طریقت کو پوشیدہ رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ سمجھ لینا چاہیے کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کی کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ :

۱-حقیقت اور طریقت کے مضامین شریعت کے خلاف تو نہیں مگرزیادہ دقیق اور باریک ہونے کی وجہ سے عام فہم بھی نہیں ہوتے اس لیے عوام کے لیے نقصان کا باعث ہوجاتے ہیں۔

۲-سلوک کی تعلیم کے طریقوں میں پوشیدگی کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا اعلان کرنے میں لوگوں کی طرف سے بے قدری کا امکان ہے اور ساتھ ہی سالک یعنی طالب کی طرف سے ہوسناکی کا بھی احتمال ہے ، جس کی وجہ سے سالک کو نقصان کا اندیشہ ہے۔

۳-مجاہدہ اور مکاشفات وغیرہ کے کو چھپانے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنے بارے میں دعوی کا احتمال ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ کسی بات کو اس وجہ سےنہیں چھپایا جاتا کہ وہ شریعت کے خلاف ہے ، بلکہ کسی صحیح غرض کی وجہ سے بھی اس کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے ،ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف ہے تو پھر وہ ضرور اس قابل ہے کہ اس کا انکار کیا جائے اوراس کو رد کردیا جائے ۔

سنت کی اتباع اللہ تک پہنچاتی ہے

اللہ تک پہنچنے کے لیے سنت کی اتباع لازمی ہے،خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس کو بھی وصول الی اللہ کی دولت میسر ہوئی وہ علم شریعت اور اتباع سنت سے ہوئی ہے ۔

اگر کسی بزرگ کا کوئی قول یا فعل خلاف سنت منقول ہو تو؟

اور اگر بالفرض کسی بزرگ کا کوئی قول یا فعل خلاف سنت منقول ہے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ:

۱-یا تو غلبہ حال اور جذب کی کیفیت میں یہ صادر ہوا ہے ۔

۲-یا کہا جائے گا کہ وہ بات ان سے غلط طور پر منقول ہے ۔

۳-یا ان سے کسی باریک مسئلہ میں جہاں شرعی دلیل دقیق اور پوشیدہ تھی وہاں ان سے اجتہادی خطا ہوئی ہے جس میں وہ شرعا معذور ہیں اوراس کی وجہ سے انہیں اللہ تعالی سے دوری نہیں ہوتی ۔

جبکہ آج کل تو یہ حال ہے کہ کھلم کھلا شریعت کی مخالفت بلکہ اس کا انکار اورا س کے ساتھ استہزا اور تمسخر کیا جاتا ہے ، جس کے کفر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ خلاف شریعت کوئی کام کرنا کسی کے لیے بھی درست نہیں ، جیسے قبروں کا طواف ، یا پیروں کو سجدہ کرنا وغیرہ ، اور یہ بھی معلوم بات ہے کہ پیر اورشیخ کی اطاعت بھی اس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ اور رسول اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم نہ کرے ،اگر پیرکسی گناہ کا حکم کرے تو اسے سلام اور رخصت کرنا چاہیے ۔

حضرت نوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

من رايتہ يدعي مع الله تعالي حالة تخرجه عن حد العلم الشرعي فلا تقربن منه (رسالہ قشیریہ)۔

ترجمہ:جس کو دیکھو کہ وہ اللہ تعالی کی معیت اور قرب میں ایسی حالت کا دعوی کرتا ہے جو شریعت کی حد سے خارج ہے تو اس کے قریب بھی مت پھٹکو۔

شریعت کے احکام کسی سے ساقط یا معاف نہیں ہوتے

ایک غلطی یہ ہے کہ بعض لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ تصوف یاطریقت میں کوئی ایسا درجہ بھی ہے کہ اس درجہ پر پہنچنے کی وجہ سے شریعت کے احکام ساقط اور معاف ہوجاتے ہیں ، یہ عقیدہ رکھنا صریح کفر ہے ، جب تک ہوش وحواس قائم ہیں شریعت کے احکام ہرگز معاف نہیں ہوسکتے ، ہاں البتہ بے ہوشی کی حالت میں انسان معذور ہے ۔

حضرت ابراہیم بن شیبان فرماتے ہیں :

علم الفناء و البقاء يدور علي اخلاص الوحدانية وصحة العبودية وما كان غير هذا فهو المغاليط والزندقة

ترجمہ :علم فنا وبقا یعنی تصوف کادارومدار خالص توحید ، اور عبودیت یعنی بندگی کے ٹھیک اور درست ہونے پر ہے ، اس کے علاوہ تصوف کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب دھوکہ بازی اور بد دینی ہے۔

کسی نے حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ سے ذکر کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو واصل باللہ ہوگئے ، اس لیے ہمیں شریعت کے ظاہری احکام کیا ضرورت ہے‘‘۔

آپ نے جواب میں فرمایا کہ :’’بے شک وہ واصل تو ہوگئے مگر واصل جہنم ہوئے ، خدا تک نہیں پہنچے ‘‘، اور پھر فرمایا کہ جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس سے تو زانی اور چور بہتر ہے ،اور فرمایا کہ اگر میں ہزار سال زندہ رہوں تو بلاعذر کسی شرعی وظیفہ کا بھی ناغہ نہ کروں۔

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,356 Views

اللہ تعالی کی ذات، صفات اور استوا علی العرش میں بحث کرنا ، مولانا اشرف علی تھانویؒ

جاننا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے چون و بے چگون ہے، اسی طرح ان کی صفات بھی بے چون و بے چگون ہیں(اللہ تعالی کی ذات وصفات کیسے کیونکر یعنی بحث وتکرار سےبلند وبالاہے )۔

سو اللہ تعالیٰ کی صفات میں رائے و قیاس سے کلام کرنا اور ان کی کیفیات و توجیہات معین کرنا نہایت خطرے کا محل ہے۔

اس بات میں اکثر عوام کا عقیدہ بہت سلامتی پر ہے کہ مجملاً صفاتِ الٰہی کا اعتقاد رکھتے ہیں، اس کی تکلیف و تفتیش کی طرف اِلتفات بھی نہیں کرتے، اور سلفِ صالحین صحابہ و تابعین ؓ کا اعتقاد بھی اسی طور پر تھا۔

پچھلے زمانے میں جب مبتدعین کی کثرت ہوئی اور علمِ کلام کا شیوع ہوا(علم کلام پھیلا) اس وقت صفات [باری تعالی]میں کلام زیادہ ہوگیا اور اکثر دعووں میں بے احتیاطی کی نوبت آگئی، مثلاً قرآنِ مجید میں ہے:

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی

ترجمہ:وہ بڑی رحمت والا عرش پر قائم ہے۔

اب اس میں یہ تفتیش کرنا کہ ’’استواء‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی کیا تاویل ہے؟ بے شک نہایت جرأت کی بات ہے،[ہمیں] اپنی صفات کے حقائق تو پورے طور پرمعلوم نہیں، تابخالق چہ رسد۔

بس سیدھی بات یہی ہے کہ مجملا اعتقاد رکھے کہ جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، حق ہے۔ جیسی اس کی ذات ہے ویسا ہی استوا ہوگا، زیادہ تفتیش کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نہ ہم اس کے مکلف ہیں، نہ ہم سے اس کا سوال ہوگا۔

البتہ یہ یقینی طور پر اعتقاد رکھے کہ یہ استوا ہمارے استوا کے مثل نہیں ہے، بقولہ تعالیٰ:

لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ

ترجمہ:کوئی چیز اس کی مثل نہیں ۔

رہا یہ کہ پھر کیسا ہے؟ اس سے بحث نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے حوالہ کردے۔

یا حدیث شریف میں آیا ہے:

یَنْزِلُ رَبَّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ إِلَی السَّمَاء الدُّنْیَـا

ترجمہ:نزول فرماتا ہے ہمارا رب ہر شب آسمانِ دنیا کی طرف۔

اب اس فکر میں پڑے کہ نزول سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کس طرح ہے؟ رسول اللہﷺ کا اس نزول کے خبر دینے سے جو مقصود ہے کہ لوگ ذوق و شوق و حضورِ قلب سے اس وقت ذکر و عبادت میں مشغول ہوں، اس کام میں لگنا چاہیے، ان فضول تحقیقات میں پڑ کر حقیقت کا پتا قیامت تک بھی لگنے کی اُمید نہیں، خواہ مخواہ اپنا وقتِ عزیز ضایع کرنا ہے:

نیست کس را از حقیقت آگہی
جملہ میرند با دستِ تہی

قال اللّٰہ تعالٰی:

فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَـآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَـآئَ تَاْوِیْـلِہٖ

رہے وہ لوگ جن کے دِلوں میں کجی ہے سو وہ پیچھے پڑتے ہیں اس مضمون کے جس کا مطلب پوشیدہ ہے اس قرآن میں سے فتنہ تلاش کرنے کو اور اس کی تاویل ڈھونڈنے کو۔

ماخوذ از: فروع الایمان ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

3,916 Views

مولانا محمد انور بدخشانی کی قرآنی خدمت کا دنیوی اعزاز، از مولانا محمد شفیع چترالی

تحریر: مولانا محمد شفیع چترالی

قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے ابدی پیغام ہدایت ہے اور ذریعۂ شفاء ہے،امت کی ذلت و ادبار کے موجودہ دور میں بھی ہمارے لیے اطمینان اور تسلی کا یہ ایک پہلو موجود ہے کہ اس امت کے پاس اللہ کا کلام آج بھی اپنی اصل صورت میں موجود ہے، جس کی طرف کسی بھی لمحے رجوع کرکے ہم دوبارہ رفعتوں اور بلندیوں کی طرف سفر شروع کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم کو پڑھنے، یاد کرنے، اپنے سینوں میں محفوظ رکھنے، اس کے معانی و معارف کو سمجھنے سمجھانے اور اس کی تعلیمات کو پھیلانے میں ہر دور ہر زمانے میں کام ہوا ہے،یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امت کے افراد اور علماء میں سے جس نے بھی جتنے جذبے، لگن اور محنت کے ساتھ قرآن کریم کی خدمت کی ’’ان اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما‘‘ کی بشارت کے عین مطابق قرآن کریم نے اس کے مقام اور مرتبے کو اتنا ہی بلند کردیا۔ اگر ہم ہندوستان کی ہی مثال سامنے رکھیں تو یہاں قرآن کریم کی سب سے زیادہ خدمت حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور ان کے خاندان نے کی اور اللہ نے اس خدمت کے عوض اس خاندان کو پورے برصغیر کے لیے علمی و روحانی سند کا درجہ عطا فرمایا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل تحریر فرمائے، جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک شہ پارہ ہے، تا ہم حضرت کی دیگر تمام تصانیف کو اگر ایک طرف اور ’’بیان القرآن‘‘ کو دوسری طرف رکھا جائے تو ان کی قرآن دانی کا یہ شاہکار سب پر بھاری نظر آتا ہے۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ کا اصل شعبہ افتاء تھا، اس شعبے میں مفتی صاحب کا کام ان کے علمی مقام و مرتبے کے بیان کے لیے کافی ہے، لیکن آج حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا زیادہ تعارف ’’معارف القرآن‘‘ کے مؤلف کی حیثیت سے ہی کیا جاتا ہے۔ مفتی صاحب کے قابل فخر صاحب زادے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیفات سے آج ایک دنیا استفادہ کررہی ہے اور مفتی صاحب نے جس موضوع پر بھی لکھا ہے، اس کا حق ادا کیا ہے، لیکن ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ ایک ایسا علمی کارنامہ ہے جو تاریخ میں ان کے نام کو اَمر کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بنے گا۔

ہمارے استاذ گرامی حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ (استاذ حدیث جامعہ علوم اسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی) کو بھی اللہ تعالی نے قرآن کریم کی ایک عظیم الشان خدمت کرنے کی سعادت بخشی اور ان کی زندگی میں ہی اس خدمت کو ایسی پذیرائی عطا فرمائی کہ یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک بڑا اعزاز بن گیا۔ مولانا کا فارسی ترجمۂ قرآن مدینہ منورہ میں قائم ’’مجمع الملک فھد لطباعۃ القرآن الکریم‘‘( جو کہ قرآن کریم کی مختلف زبانوں میں طباعت و اشاعت کا سرکاری ادارہ ہے) نے فارسی زبان میں لکھے گئے تمام تراجم میں سے منتخب کرکے شائع کیا ،اور یہ ترجمہ اب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر سعودی حکومت کی جانب سے پوری دنیائے فارسی میں مفت تقسیم ہورہا ہے۔ اس وقت دنیا میں کئی ممالک ہیں جن کی قومی زبان فارسی ہے اور وہاں بڑے بڑے علماء موجود ہیں، اس کے باوجود پاکستان کے ایک عالم کا ترجمۂ قرآن طباعت کے لیے منظور ہونا پاکستان کے لیے اور پاکستان کے دینی مدارس کے لیے اور بالخصوص مادرِ علمی جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کے لیے بڑے فخر کی بات ہے،بتایا گیا ہے کہ سعودی حکومت نے افغانستان کی وزارت مذہبی امور سمیت متعدد فارسی زبان بولنے والے ممالک کے حکام سے اس سلسلے میں تجاویز مانگیں تو سب سے زیادہ آراء مولانا بدخشانی کے ترجمے کے حق میں آئیں اور کچھ لوگوں نے مخصوص وجوہ کی بناپر اس رائے سے اختلاف کیا تو ان سے کہا گیا کہ آپ اس پائے کا دوسرا ترجمہ لے کر آئیں، مگر وہ اس کی مثال نہ لاسکے۔

یہ فخر اور اعزاز حاصل کرنے سے پہلے استاذ گرامی مولانا محمدانور بدخشانی مدظلہٗ العالی نے بہت طویل علمی سفر طے کیا۔ قرآن کریم کو سمجھنے، سمجھانے کے لیے جتنے علوم اور معاون فنون (بیس کے قریب) بر صغیر پاک و ہند میں پڑھائے جاتے رہے ہیں، ان میں سے ہر علم اور فن کو مولانا نے پڑھا، پڑھایا اور ان میں سے تقریباً ہر ایک علم پر ایک یاایک سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

اگر میری اس بات کو تلمیذانہ عقیدت پر محمول نہ کیا جائے تو میری نظر میں (جو کہ یقیناً محدود ہے) اس وقت پاکستان میں کوئی ایسا عالم موجود نہیں ہے جو تقریبا تمام مروجہ منقولات و معقولات پر مولانا محمد انور بدخشانی مدظلہ جیسا مجتہدانہ عبور رکھتا ہو۔ تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، بلاغت، منطق، فلسفہ اور صرف و نحو و غیرہ کی وہ کتابیں جو موجودہ نصاب میں شامل ہیں، وہ تو آپ نصف صدی سے پڑھا رہے ہیں اور ان میں سے ہر موضوع پر آپ کی کتابیں بہت سے اداروں میں شامل نصاب ہیں۔ اس کے علاوہ معقولات کی وہ اعلیٰ پائے کی کتابیں جن کے صرف نام لوگوں کے ذہنوں میں باقی رہ گئے ہیں، مثلاً: صدرا، شمس بازغہ، خیالی، مطول، مسلم الثبوت، سلم، ملاحسن، قاضی مبارک، حمد اللہ، شرح مواقف، شرح چغمینی و غیرہ، یہ سب کتابیں مولانا نے اپنے زمانے کے جیدترین معقولی علماء سے باقاعدہ پڑھیں۔

مولانا محمد انور بدخشانی کا مختصر خاندانی و تعلیمی پس منظر یہ ہے کہ آپ ۱۹۴۳ء کو افغانستان کے صوبہ بدخشان کے گاؤں زردہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے چچا مولانا محمدشریف افغانستان کے نامور عالم دین تھے، جو جامعہ امینیہ دہلی کے فاضل اور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمدکفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے ممتاز شاگرد تھے۔ اس طرح مولانا نے ایک علمی ماحول میں آنکھ کھولی اور قرآن کریم اور عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے چچا سے ہی حاصل کی۔ اس زمانے میں تخار افغانستان میں علم و ادب کا ایک بڑا مرکز تھا، اس لیے آپ نے درجاتِ ثانویہ میں صرف و نحو، ادب، بلاغت، فقہ، تفسیر اور منطق بیسیوں کتابیں پڑھیں اور ان موضوعات پر بڑی کتابوں کی تعلیم کے لیے دوبارہ اپنے چچا مولانا محمدشریف کی خدمت میں حاضر ہوئے، مشکوۃ اور مطول تک کتابیں ان سے پڑھیں۔ پھر آپ ۱۹۶۵ء میں پاکستان تشریف لائے اور کچھ عرصہ کوہاٹ کے دارالعلوم انجمن تعلیم القرآن میں رہے اور منقولات میں بیضاوی شریف اور معقولات میں میبذی و قاضی مبارک تک کی کتابیں وہاں پڑھیں۔ ۱۹۶۶ء میں آپ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخل ہوئے اور فرید العصر مفتی محمد فرید رحمہ اللہ و دیگر مشایخ سے تفسیر ، عقائد اور فقہ کی کتابوں کی تکمیل کی اور پھر معقولات کی تکمیل کے لیے سوات کا قصد کیا اور دارالعلوم سید و شریف و دیگر مدارس میں وقت کے ممتاز معقولی علماء مارتونگ باباجی رحمہ اللہ و دیگر سے منطق، فلسفہ، فلکیات، ہندسہ، حساب و غیرہ کی بیشتر مشہور کتابیں پڑھیں۔

اس کے بعد آپ کراچی تشریف لائے اور محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ و دیگر مشایخ سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ کراچی کے بزرگوں نے بدخشان کے اس ہیرے کی خوب قدر دانی کی، حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے اپنی صاحبزادی آپ کے عقد میں دی ،اور ان کی وفات کے بعد مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی نواسی اور دارالعلوم کراچی کے بانی رکن اور ناظم اول حضرت مولانا نور احمد صاحب کی صاحبزادی آپ کی رفیقۂ حیات بنیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ نے آپ کو جامعہ فاروقیہ میں تدریس کے لیے منتخب فرمایا اور دو تین سال بعد حضرت بنوری رحمہ اللہ نے آپ کو ان سے واپس مانگ لیا۔ ۱۹۷۲ء سے تا ایں دم آپ اپنے شیخ کے ادارے سے وابستہ ہیں۔ مولانا محمد انور بدخشانی مدظلہٗ نے نصف صدی سے زائد عرصہ کراچی میں گزارا، مگر ان کی زبان، لہجے اور تلفظ پر فارسی کا اثر آج بھی غالب ہے، ہم کبھی سوچا کرتے تھے کہ اگر استاذ جی اردو زبان و ادب پر توجہ دیتے تو شاید عربی اور فارسی کی طرح اردو میں بھی آپ کی علمی خدمات کا فیض عام ہوتا، مگر اب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے شاید فارسی زبان میں آپ سے اتنا بڑا کام لینا تھا، اس لیے فارسی کے ساتھ آپ کا رشتہ کمزور نہیں ہونے دیا۔ واللہ غالب علی أمرہٖ و لکن أکثر الناس لایعلمون!

مولانا محمد انور بدخشانی کا فارسی ترجمہ قرآن نیچے دیے گئے لنک سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے:

3,188 Views

تین طلاق کے بعد بیوی حرام کیوں؟ حلالہ کیا ہے ؟ حلالہ عورت پر ظلم یا شوہر کے لیے سزا؟

از: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
تسہیل وترتیب: مفتی عمر انور بدخشانی

یہ سوال حضرت ابن قیم ؒ پر وارد ہوا تھا،اس پر جو جواب انہوںنے اپنی کتاب ’’إعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ میں درج فرمایا ہے، ہم اس کا ترجمہ مختصر طور پر یہاں لکھ دیتے ہیں:

تین طلاق کے بعد مرد پر عورت کے حرام ہونے اور دوسرے نکاح کے بعد پھر پہلے مرد پر جائز ہونے کی حکمت کو وہی جانتا ہے جس کو اسرارِ شریعت اور خدا تعالی کی عام مصلحتوں سے واقفیت ہو۔

تورات اور انجیل کی شریعت میں طلاق کے بعد حکم

واضح ہو کہ اس معاملہ میں شریعتیں مصالح کے اعتبار سےہر زمانہ اور ہر اُمت کے لیے مختلف رہی ہیں، تورات کی شریعت نے طلاق کے بعد جب تک عورت دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے پہلے مرد کا رجوع اس کے ساتھ جائز رکھا تھا ،اور جب عورت دوسرے شخص سے نکاح کرلیتی تو پہلے شخص کو اس عورت سے کسی صورت میں رجوع جائز نہ تھا۔ اس حکم میں جو حکمت و مصلحتِ الٰہی ہے ظاہر ہے، کیونکہ جب مرد جانے گا کہ اگر میں نے عورت کو طلاق دے دی تو عورت کو پھر اپنا اختیار ہوجائے گا اور عورت کے لیے دوسرا نکاح کرنا بھی جائز ہو جائے گا، اور پھر جب اس نے دوسرا نکاح کرلیا تو مجھ پر ہمیشہ کے لیے یہ عورت حرام ہوجائے گی، تو ان خاص اُمور کے تصور سے مرد کا عورت سے تعلق و تمسک (روکے رکھنا)پختہ ہوتا تھا اور عورت کی جدائی کو ناگوار سمجھتاتھا،تورات کی شریعت امت موسوی کے مزاج وحال کے اعتبار سے نازل ہوئی تھی، کیوںکہ تشدد (سختی)اور غصہ اور اس پر اصرار کرنا ان میں بہت تھا۔

پھر انجیل کی شریعت آئی تو اس نے نکاح کے بعد طلاق کا دروازہ بالکل بند کردیا، یعنی جب مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا تھا تو اس کے لیے عورت کو طلاق دینا ہرگز جائز نہ تھا۔

طلاق اورشریعت محمدیہ واسلام

پھر شریعتِ محمدیہ نازل ہوئی جو کہ سب شریعتوں سے اکمل افضل و اعلیٰ اور پختہ تر ہے اور انسانوں کے مصالحِ معاش و معاد (دنیا وآخرت کی زندگی) کے زیادہ مناسب اور عقل کے زیادہ موافق ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس اُمت کا دین کامل اور ان پر اپنی نعمت پوری کی، اور طیبات (پاکیزہ چیزوں ) میں سے اس اُمت کے لیے بعض وہ چیزیں حلال ٹھہرائی ہیں جو کسی اُمت کے لیے حلال نہیں ہوئی تھیں، چنانچہ مرد کے لیے جائز ہوا کہ بحسبِ ضرورت بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کرسکے۔ پھر اگر مرد و عورت میں نہ بنے تو مرد کو اجازت دی کہ اس کو طلاق دے کر دوسری عورت سے نکاح کرلے، کیونکہ جب کہ پہلی عورت طبیعت ومزاج کے موافق نہ ہو ،یا اس سے کوئی فساد واقع ہو اورعورت اس سے باز نہ آئے تو شریعتِ اسلامیہ نے ایسی عورت کو مرد کے ہاتھ اور پاؤں اور گردن کی زنجیر بنا کر اس میں جکڑنا اور اس کی کمر توڑنے والا بوجھ بنانا تجویز نہیں کیا، اور نہ اس دنیا میں مرد کے ساتھ ایسی عورت کورکھ کر اس کاگھر دوزخ بنانا چاہا ہے:

زنِ بد در سایۂ مردِ نکو
ہمدریں عالم است دوزخ او

طلاق دینے کا صحیح طریقہ

لہٰذا خدا تعالیٰ نے ایسی عورت کی جدائی مشروع (جائز ) فرمائی ،اور وہ جدائی بھی اس طرح مشروع (جائز) فرمائی کہ مرد عورت کو ایک طلاق دے، پھر عورت تین حیض یا تین ماہ تک اس مرد کے رجوع کا انتظار کرے، تاکہ اگر عورت سدھر جائے اور شرارت سے باز آجائے اور مرد کو اس عورت کی خواہش ہوجائے، یعنی خدائے مصرف القلوب مرد کے دل کوعورت کی طرف راغب کردے تو مرد کو عورت کی طرف رجوع ممکن ہوسکے اور مرد کے لیے رجوع کرنے کا دروازہ کھلا رہے، تاکہ مرد عورت سے رجوع کرسکے ،اور جس معاملہ کو شیطانی جوش اورغصہ نے اس کے ہاتھ سے نکال دیا تھا وہ شوہر کو مل سکے۔

چونکہ ایک طلاق کے بعد پھر بھی جانبین (میاں بیوی)کی طبعی غلبات (طبیعتوں کے غلبہ سے غصہ )اور شیطانی چھیڑ چھاڑ کا اعادہ ممکن تھا، اس لیے دوسری طلاق مذکورہ مدت کے اندر مشروع (جائز)ہوئی، تاکہ عورت بار بار کی طلاق کی تلخی کا ذائقہ چکھ کر اورگھر کی خرابی کو دیکھ کر قبیحہ (برائی)کا اعادہ نہ کرے، جس سے اس کے شوہر کو غصہ آئے اور عورت کے لیے جدائی کا باعث ہو۔ اور مرد بھی عورت کی جدائی محسوس کرکے عورت کو طلاق نہ دے۔

تین طلاق دینے کے بعد ؟

جب اسی طرح تیسری طلاق کی نوبت آ پہنچے تو اب یہ وہ طلاق ہے کہ جس کے بعد خدا کا یہ حکم ہے کہ اس مرد کا رجوع اس تین طلاق دی ہوئی عورت (مطلقہ ثلاثہ) سے نہیں ہوسکتا، اس لیے جانبین (میاں بیوی) کو کہا جاتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق تک توتمہارا رجوع آپس میں ممکن تھا، اب تیسری طلاق کے بعد رجوع نہ ہوسکے گا، تو اس قانون کے مقرر ہونے سے وہ دونوں سدھر جائیں گے، کیونکہ جب مرد کو یہ تصور ہوگا کہ تیسری طلاق اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان بالکل جدائی ڈالنے والی ہے تو وہ طلاق دینے سے باز رہے گا، کیونکہ جب شوہر کو اس بات کا علم ہوگا کہ اب تیسری طلاق کے بعد یہ عورت مجھ پر دوسرے شخص سے شرعی نکاح ،پھر طلاق اور عدت کے بغیر حلال نہ ہوسکے گی، اور پھر دوسرے شخص سے اس عورت کے نکاح کا ٹوٹنا بھی یقینی نہیں ،اور دوسرے نکاح کے بعد بھی جب تک دوسرا خاوند اس کے ساتھ دخول (صحبت) نہ کرچکے ،اور اس کے بعد یا تو دوسرا خاوند مرجائے ،یا وہ عورت کواپنی رضاسے طلاق دے دے اور وہ عورت عدت بھی گزارے تب تک پہلا شوہر اس کی طرف رجوع نہ کرسکے گا، تو اس وقت مرد کو اس رجوع کی نااُمیدی کے خیال سے اور ان کے محسوس کرنے سے ایک دور اندیشی (فہم وفراست) پیدا ہوجائے گی اور وہ خدا تعالیٰ کے ناپسند ترین مباحات یعنی طلاق کے واقع کرنے سے باز رہے گا۔

اسی طرح جب عورت کو بھی اس عدمِ رجوع (رجوع نہ ہوسکنے)کی واقفیت ہوگی تو عورت کے اَخلاق بھی درست رہیں گے اور اس سے ان کی آپس میں اصلاح ہوسکے گی۔

حلالہ کی غرض سے نکاح کرنے اور کرانے والے پر رسول اللہ کی لعنت

اس دوسرےنکاح کے متعلق نبی ﷺ نے اس طرح تاکید فرمائی کہ وہ نکاح ہمیشہ کے لیے ہو، پس اگر دوسرا شخص اس عورت سے اپنے پاس ہمیشہ رکھنے کے ارادہ سے نکاح نہ کرے، بلکہ خاص حلالہ ہی کے لیے نکاح کرے، تو آنحضرت ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے، اور جب پہلا شخص (شوہر)اسی قسم کے حلالہ کے لیے کسی کو رضا مند کرے تو اس پر بھی لعنت فرمائی ہے:

عن ابن عباس ؓ لعن رسول اللّٰہ ﷺ المحلل والمحلل لہ

یعنی رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ۔

شرعی حلالہ کیا ہے؟

سو شرعی حلالہ وہ ہے جس میں خودبخود ایسے اسباب پیدا ہوجائیں کہ جس طرح پہلے شوہر نے اتفاقاً عورت کو طلاق دی تھی، اسی طرح دوسرا شوہربھی اتفاقاطلاق دے (پہلے شوہر کی وجہ سے نہ دے)یا دوسرا شوہر مرجائے تواب عدت کے بعد پہلے شوہر کی طرف عورت کا رجوع بلا کراہت درست ہے۔

پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع جائز ہونے کی وجہمذکورہ بیان سے واضح اورظاہرہے کہ اس میں نکاح کی عزت وعظمت ،نعمت الہی کا شکر ، نکاح میں ہمیشگی اورقطع تعلقی نہ ہونا ملحوظ ہے، کیونکہ جب شوہر کو عورت کی جدائی سے اس کے وصل ثانی(دوسرے ملاپ) تک اتنی رکاوٹیں درمیان میں حائل ہونے والی متصور ہوں گی تو شوہر تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔

إن الشارع حرمھا علیہ حتی تنکح زوجًا غیرہ؛ عقوبۃ لہ۔ ولعن المحلل والمحلل لہ؛ لِمناقضتھما ما قصدہ اللّٰہ سبحانہ من عقوبتہ۔ وکان من تمام ھذہ العقوبۃ أن طول مدۃ تحریمھا علیہ، فکان ذلک أبلغ فیما قصدہ الشارع من العقوبۃ؛ فإنہ إذا علم أنھا لا تحل لہ حتی تعتد بثلاثۃ قروء، ثم یتزوجھا آخر نکاح رغبۃٍ مقصودًا لا تحلیلٍ موجبٍ للعنۃ، ویفارقھا، وتعتد من فراقہ ثلاثۃَ قروء أخر: طال علیہ الانتظار، وعیل صبرہ، فأمسک عن الطلاق الثلاث۔ وھذا واقع علی وفق الحکمۃ والمصلحۃ والزجر۔ فکان التربص بثلاثۃ قروء في الرجعیۃ نظرا للزوج، ومراعاۃ لمصلحتہ، لما لم یوقع الثالثۃ المحرمۃ لھا علیہ، وھھنا کان تربصھا عقوبۃ لہ وزجرا لما أوقع الطلاق المحرم لما أحل اللّٰہ لہ، وأکدت ھذہ العقوبۃ بتحریمھا علیہ إلا بعد زوج وإصابۃ وتربص ثانٍ۔

ترجمہ: بیشک صاحب شریعت کا عورت کو مرد پر اس وقت تک کے لیے حرام کردینا کہ وہ دوسرے سے نکاح کرلے مرد کے لیے ایک سزا ہے ، اورحلالہ کرنے کرانے والے پر اس لیے لعنت فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے جس سزا کا قصد فرمایا تھا یہ اس کے خلاف کرتے ہیں ،اوراس سزا کی تکمیل میں یہ بھی داخل تھا کہ مرد پر عورت کے حرام ہونے کی مدت طویل ہو ، یہ صورت صاحب شریعت کے مقصود کو زیادہ پورا کرتی ہے ، کیونکہ جب مرد یہ جان لے گا کہ اب عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوسکے گی جب تک تین حیض (ماہواری) عدت کے نہ گذارے ، پھر دوسرا شخص اس سے صرف شادی کی غرض سے نہ کہ لعنت والے حلالہ کی غرض سے نکاح نہ کرے ، پھر وہ اس سے علیحدہ نہ ہوجائے ،اورعورت اس علیحدگی کے بعد تین حیض عدت اورنہ گذارے ، تو مرد کا انتظار طویل اور صبر سخت ہوجائے گا ،تو یہ اس کو تین طلاق دینے سے روک دے گا ، اور یہ حکم بالکل حکمت اور مصلحت اورخیر کے موافق واقع ہوا ہے ، اور رجعت کے لیے تین حیض تک انتظار کا ہونا مرد پر شفقت اور اس کی مصلحت کی رعائت کے لیے ہے ،کیونکہ اس نے ابھی تک وہ تیسری طلاق واقع نہیں کی تھی جو عورت کو اس پر بالکل حرام کردیتی ہے ، اور یہاں اس مدت کا ہونااس کے لیے سزا اوراس بات پر ناگواری کا ظہار ہے کہ اس نے وہ طلاق واقع کردی جو اللہ کی حلال کی ہوئی نعمت کو حرام کردیتی ہے ،اوراس سزا کو اس طرح قوی کیا گیا ہے کہ عورت بجز صورت کے اس پر حرام ہی رہ جاتی ہے وہ یہ کہ دوسرے شخص سے نکاح کرے ،پھر وہ اس سے صحبت کرے ،پھر دوسری عدت ہو۔

ماخوذ از: المصالح العقلیۃ للاحکام النقلیۃ ، احکام اسلام عقل کی نظر میں ، از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ

یہ مضمون انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

4,121 Views
error: Content is protected !!